Maktaba Wahhabi

179 - 523
طلب کرے تو بے ہودہ قسم کے عذر تراش کر ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں، اور اس میں ظاہری امور اور چمک دمک تلاش کرتے ہوئے کبھی اس کے مال کے متعلق سوال کرتے ہیں تو کبھی اس کی نوکری کے بارے میں استفسار، کبھی اس کے معاشرتی مقام و مرتبے کے بارے میں پوچھتے ہیں تو کبھی اس کے عزت و جاہ کے متعلق پرسش لیکن اس کے دین، اخلاق اور امانتداری سے مکمل غفلت بر تتے ہیں۔ بلکہ کچھ سر پرست اور اولیا تو لالچ میں اس قدراندھے ہو جا تے ہیں کہ وہ اپنی آزاد عزت دار مسلمان بیٹی کو سامان تجارت سمجھتے ہوئے باقاعدہ بولی لگا کر سود ے بازی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھے۔ یہ بے چارے بالکل نہیں جانتے کہ یہ بہت بڑا ظلم اور خیانت ہے۔ بعض اوقات اگر ان کی بیٹی سکول ٹیچر ہو یا کہیں ملازم ہو تو اس کی تنخواہ پر نظر رکھتے ہوئے اس کو روکے رکھتے ہیں۔ کیا ایسے اولیا بالکل بے رحم ہو چکے ہیں؟ یہ آخر انجام سے اس قدر غافل کیوں ہو چکے ہیں؟ کیا یہ اپنی بیٹیوں کی رسوائی کی خبر یں سن کر خوش ہونا چاہتے ہیں جس کو سن کر حیا اور فضیلت کی پیشانی بھی شرم سے جھک جائے؟ سبحان اللہ! ایک غیرت مند مسلمان جو عورت کی فطرت سے آگاہ ہو کس طرح اس کو گھر میں عمر قید کی سزا سنا کر بند کرسکتا ہے؟ اگر ان میں ذرا بھی عقل کی رمق باقی ہوتی تو اپنی لڑکیوں کے لیے مناسب رشتے ڈھونڈتے۔ یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں جو کبھی اپنی بیٹی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا رشتہ حضرت ابوبکر کو پیش کرتے ہیں تو کبھی حضرت عثمان کو۔[1] یہ سیدنا سعید بن مسیب رحمہ اللہ ہیں جنھوں نے اپنے شاگرد ابو وداعہ کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کر دی۔[2] یہ ان سنہری ادوار میں سلف صالحین کی روش تھی۔ شادی کے مواقع تنگ اور مشکل کرنے کی وجہ سے علاقے ویران ہو جاتے ہیں، نیند کافور ہوجاتی ہے، پاکدامنی کا قتل ہونے لگتا ہے، فضیلت کو زندہ درگور کر دیا جاتا ہے، بد اخلاقیاںچھا جاتی ہیں، عزتیں پامال ہوجاتی ہیں، برائیاں اور بد کاریاں پھیل جاتی ہیں۔ اے سر پرستو! اپنی ماتحت بیٹیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ۔ اگر دینی اور اخلاقی
Flag Counter