Maktaba Wahhabi

262 - 523
ہیں۔ اس موقع پر سمجھ دار آدمی کے سامنے کئی سوالات آتے ہیں جن کا صحیح جواب دینا ضروری ہوتا ہے، مثلاً گزشتہ ایام میںاس نے اپنے لیے کیا کیا اور اپنے بھائیوں کے لیے کیا پیش کیا ؟ کیا چھٹیوں کا یہ موسم اس کے لیے نیکیاں جمع کرنے میں پیش قدمی کرنے اور باقیات صالحات کی دوڑ میں بازی لے جانے کا میدان اور سیزن تھا ؟ یا یہ چھٹیاں گناہوں کا بیلنس بڑھانے اور غلطیوں کا بوجھ زیادہ کرنے کا موقع تھیں ؟ کیا یہ چھٹیاں علوم و معارف میں اضافہ کرنے کا سنہری موقع اور نفسانی، عقلی اور بدنی کمالات کے درجوں میں ترقی کرنے کا چانس تھا یا کہ یہ محض سستی و کاہلی میں قیمتی اوقات کو بیکار ضائع کرنے کا موقع ہے ؟ کیا دوسرے ملکوں کا سفر اختیار کرنے والے لوگوں کا سفر سامانِ عبرت جمع کرنے اور مفید و خوبصورت مگر حلال اشیا کے مجموعے میں اضافہ کرنے کے لیے تھا یا کہ یہ ہر نقصان دہ اور حرام چیز کو جمع کرنے میں سبقت لے جانے والا میدان تھا؟ کیا چھٹی حاصل کرنے والا شخص اس دوران میں اپنے اہل و عیال اور اقارب و رشتہ دار لوگوں کے حقوق کو ادا کرنے کا جذبہ لیے ہوئے تھا یا نہیں ؟ جس نے اس سے قطع تعلقی کی کیا اِس نے اُس سے صلہ رحمی کی ؟ جو رشتہ خراب ہو چکا تھا اس کی اصلاح کی؟ اور جو زنگ آلود ہو چکا تھا اسے صیقل کیا؟ اور جو کمزور پڑ چکا تھا اسے مضبوط و قوی بنایا ؟ یا کہ وہ مزید تقصیر میں غرق اور دوری پیدا کرنے میں پہل کرنے والا بنا ؟ یہ ایسا لمحۂ فکریہ ہے کہ ہر صاحبِ عقل و خِرد کو ہر کام کے بعد، ہر مرحلہ کی انتہا پر اور ہر چکر کے آخر میں تھوڑا سا وقت نکال کر اپنے آپ سے گوشۂ تنہائی میں محاسبے کے انداز سے بیٹھنا اور سوچنا چاہیے، تاکہ پتہ چل سکے کہ اس نے کیا کھویا اور کیا پا یا؟ اگر کسی نے اپنے حالات کو سنوارنا ہے، معاملات کو سدھارنا ہے اور انجام و عاقبت کو بہتر بنانا ہے تو اسے موقع بموقع ایسے لمحاتِ فکر میں اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے، اگر کسی نے اس نہج کو اختیار کر لیا تو وہ دنیا کی زندگی میں بھی کامیاب و کامران ہو گا اور آخرت میں بھی فوز وفلاح اس کا مقدر ہو گی۔ ارشادِ الٰہی ہے : { یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللّٰہَ
Flag Counter