Maktaba Wahhabi

363 - 523
چیز جل جاتی، بالآخروحیٔ الٰہی نے دخل اندازی کی تاکہ اس سانحہ کے سامنے بند باندھے اور آئندہ آنے والے تمام زمانوں کے مسلمانوں کے لیے ایک منہج و طرزِ عمل مقرر فرما دے کہ ایسی افواہوں کے موقع پر کونسا موقف اختیار کرنا واجب ہے؟ چنانچہ سورۂ نور میں اﷲ تعالیٰ نے کئی آیات نازل فرمائیں۔ ایک جگہ فرمایا: { لَوْلآَ اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِاَنفُسِھِمْ خَیْرًا وَّقَالُوْا ھٰذَا اِفْکٌ مُّبِیْنٌ} [النور: ۱۲] ’’بہتان کو سنتے ہی مومن مردوں اور عورتوں نے اپنے حق میں نیک گمانی کیوں نہ کی اور یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو صریح اور کھلم کھلا جھوٹ ہے۔‘‘ اور پھر کچھ آگے جا کر فرمایا: { اِذْ تَلَقَّوْنَہٗ بِاَلْسِنَتِکُمْ وَتَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاھِکُمْ مَّا لَیْسَ لَکُمْ بِہٖ عِلْمٌ وَّتَحْسَبُوْنَہٗ ھَیِّنًا وَّھُوَ عِنْدَ اللّٰہِ عَظِیْمٌ} [النور: ۱۶] ’’تم نے ایسی بات کو سنتے ہی یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں تو ایسی بات منہ سے نکالنی بھی لائق نہیں۔ اے اﷲ تو پاک ہے، یہ تو بہت بڑ ا بہتان ہے۔‘‘ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مہینہ بھر نہ میرے آنسو تھمے اور نہ میری آنکھ ہی لگی یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر سے میری براء ت نازل فر ما دی۔[1] ان کفار و منافقین کی افواہ بازیوں ہی میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے واقعہ کو اپنے مذموم عزائم کے لیے استعمال کرتے ہوئے باتیں پھیلانا اور مسلمانوں کے خلاف نفسیاتی جنگ کو ہوا دینا شروع کر دی، اور کہنے لگے کہ اسلام کا قصہ اب تمام ہوا، اب اسکا نام و نشان بھی باقی نہیں رہے گا، ان کی اس افواہ کا بعض صحابہ پر بڑا اثر ہوا اور لوگ بڑے قلق و اضطراب میں مبتلا ہوئے، حتی کہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو تیار کیا اور انھوں نے امت کو اﷲ تعالیٰ کے اس ارشاد سے اس قلق و پریشانی سے باہر نکالا جس میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے: { وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ
Flag Counter