Maktaba Wahhabi

265 - 871
اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ جب دل اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے تو شیطان چھوٹا اور مغلوب ہو جاتا ہے اور جب اللہ کا ذکر نہیں کرتا تو بڑا اور غالب بن جاتا ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعًا مروی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں آتا ہے تو شیطان اس کے پاس آ کر اسے اشتباہ میں ڈالتا ہے،جس طرح آدمی اپنے چارپائے کو دباتا ہے۔پھر جب وہ اس کے لیے رک جاتا ہے تو وہ اسے جکڑ لیتا ہے یا لگام پہناتا ہے۔ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تم اس صورت حال کا مشاہدہ کرتے ہو کہ مزنوق (بندھا ہوا اور جکڑا ہوا) مائل ہوتا ہے اور ایسے ہی اللہ کا ذکر نہیں کرتا۔رہا وہ جس کو لگام پڑی ہوتی ہے تو وہ منہ کھولے ہوئے ہوتا ہے،وہ بھی اللہ عز وجل کا ذکر بجا نہیں لاتا۔‘‘[1] (تفرد بہ أحمد) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ﴿اَلْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ﴾ کے معنی بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ شیطان ابن آدم کے دل پر بیٹھا ہوا ہے۔پھر جب اس نے لہو اور غفلت کا مظاہرہ کیا تو شیطان نے اسے وسوسہ ڈالا۔پھر جب اس نے اللہ کا ذکر کیا تو وہ سٹک (کھسک) جاتا ہے۔مجاہد اور قتادہ رحمہما اللہ کا بھی یہی قول ہے۔ معتمر کے والد سلیمان رحمہ اللہ نے کہا،میں نے سنا ہے کہ شیطان یا وسواس،حزن و فرح کے وقت ابن آدم کے دل میں نقب لگاتا ہے،جب وہ اللہ کا ذکر کرتا ہے تو چل دیتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ وسواس سے مراد شیطان ہے،وہ حکم کرتا ہے،جہاں اس کا کہنا مانا جائے وہ گھس جاتا ہے۔ کیا شیطان خاص ابن آدم کے سینوں میں وسواس ڈالتا ہے یا جن و انس دونوں میں ؟ اس میں اختلاف ہے۔اول ظاہر ہے اور دوسرے قول پر گویا لفظ ناس میں تغلیباً جن بھی داخل ہیں۔ ابن جریر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ قرآن مجید میں جنوں کے حق میں ﴿بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ﴾ کے لفظ استعمال ہوئے ہیں،تو پھر لفظ ناس کے جنوں پر اطلاق کرنے میں کوئی جدت و بدعت نہیں ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ: ﴿مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ﴾ ارشادِ باری تعالیٰ ﴿اَلَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ
Flag Counter