Maktaba Wahhabi

487 - 871
وَأَھْدَتْ لَہُ الْمُلُوْکُ فَقَبِلَ مِنْھُمْ)) [1] (أخرجہ أحمد والترمذي والبزار) [یعنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کسریٰ وقیصر اور بادشاہوں نے ہدیہ بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کیا] یہاں سے ثابت ہوا کہ کافروں کا ہدیہ قبول کرنا جائز ہے۔اس باب میں کئی حدیثیں ہیں۔کہتے ہیں کہ یہ احادیث کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث سے منسوخ ہیں،انھوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا أَقْبَلُ ھَدِیَّۃَ مُشْرِکٍ)) [2] [میں کسی مشرک کا تحفہ قبول نہیں کرتا] (أخرجہ موسٰی بن عقبہ في المغازي،وقال في فتح الباري: رجالہ ثقات إلا أنہ مرسل) عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ انھوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اونٹنی کا ہدیہ بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام لائے ہو؟ انھوں نے جواب دیا کہ نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((نُھِیْتُ عَنْ زَبَدِ الْمُشْرِکِیْنَ)) [3] [مجھے مشرکین کے ہدیے سے منع کر دیا گیا ہے] (أخرجہ أبوداؤد والترمذي وابن خزیمۃ وصححاہ) امام شوکانی رحمہ اللہ نے’’شرح مختصر‘‘ میں فرمایا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے کافروں کا ہدیہ قبول کرنے کی احادیث بہت ہیں۔خطابی رحمہ اللہ نے کعب رضی اللہ عنہ کی حدیث کے بارے میں فرمایا ہے کہ’’یشبہ أن یکون ھذا الحدیث منسوخا‘‘ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہدیہ رد کرنا غصہ دلانے کے ارادے سے تھا،تاکہ ان کی طرف مائل نہ ہوں،کیونکہ مشرکین کی طرف مائل ہونا جائز نہیں ہے اور مذکورین کے ہدیے کے قبول کرنے کی و جہ یہ تھی کہ وہ اہلِ کتاب ہیں۔نیز کہتے ہیں کہ رد اس کے ہدیے کا ہے جو اس ہدیے سے دوستی اور موالات کا ارادہ رکھتا ہو اور قبولیت اس کے لیے ہے جس سے تانیس وتالیف کی امید ہو اور ممکن ہے کہ،جمعاً بین الادلہ،نہی صرف کراہت کے لیے ہو،جو جواز کے منافی نہیں ہے۔[4] انتھیٰ۔ ’’عدۃ المنسوخ ‘‘میں فرمایا ہے کہ ان احادیث میں تین وجوہ ہیں : ایک یہ کہ قبولیت کی احادیث اثبت ہیں اور عیاض رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اِرسال ہے۔دوسری
Flag Counter