Maktaba Wahhabi

611 - 871
نزلت بمکۃ في قبائل ہاشم ونزلت بالبیداء أبعد منزل [میں مکہ میں ہاشمی قبائل کے ہاں اترا اور تومنزل سے کہیں دور بیدا میں جا اترا] طرفہ تماشا یہ کہ انھوں نے اپنی اس کار گزاری کو وسعتِ علمِ تفسیر پر محمول کیا ہے اور ان اضافوں کو علومِ قرآنیہ کا حصہ شمار کیا ہے۔یہ سب کچھ فرقانِ حمید کی ان آیات بینات کے ساتھ ہوا،جن آیات کو قروی و بدوی اور عالم و جاہل تمام لوگوں کی ہدایت کے لیے خالقِ عباد اور مدبرِ عالم نے افضل فرشتے (جبریل علیہ السلام) کے واسطے سے افضل بشر (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل فرمایا۔ان لوگوں نے ان آیات کو اپنی دور ازکار تاویلات و مقالات کے ساتھ بے حد مشکل اور چیستان بنا کر رکھ دیا،گویا قرآن مجید کا نزول خاص علما کے لیے ہے اور جاہل لوگ اس سے بے نصیب و بے توفیق ہیں۔حتیٰ کہ اس آخری دور میں جبکہ خیرالبشر (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کی ہجرت کو تیرہ سو سال بیت چکے ہیں اور آج کا دور عہدِ نبوت سے دوری کی وجہ سے ﴿ظُلُمَاتٌ بَعْضُھَا فَوْقَ بَعْضٍ﴾ کا مصداق بن کر رہ گیا ہے اور قیامت کبریٰ کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں،علما گفتگو میں،مشائخ جستجو میں اور عوام کوبکو (کیوں اور کیسے) میں گھرے ہوئے ہیں۔قرآن مجید اور فرقانِ حمید کے نزول کا مقصد خالی تلاوت بن کر رہ گیا ہے اور یہ عمل بھی۔إلا ماشاء اللّٰہ۔اخلاصِ عمل اور صلاحِ نیت کے بغیر ہو رہا ہے۔ معانیِ قرآن میں تدبر،مقاصدِ فرقان میں تفکر،اس کے اوامر و نواہی پر کاربند ہونا،اللہ کے ایام سے نصیحت پکڑنا،اللہ کی نعمتوں سے موعظت حاصل کرنا،اللہ تعالیٰ کے اہلِ کتاب،مشرکین اور منافقین کے ساتھ مباحثہ کرنے سے عبرت پکڑنا،اپنے نفسوں میں ان چاروں گمراہ فرقوں کے احوال و اخلاق اور اقوال و افعال جیسے تلاش کرنا اور ان پر عمل کرنے سے پرہیز کرنا،ہر کسی کے اقوال و احوال،وہ کوئی ہو کہیں ہو،کو اس قرآن پر پیش کرنا،ان میں سے ہر آیت کے موافق اور مخالف مجتہدات اور مستنبطات کو تلاش کرنا،جو قرآن کے موافق ہو،اسے لے لینا اورجو اس کے مخالف ہو،اسے چھوڑ دینا،کیونکہ کتابِ عزیز کے نزول اور ذکرِ حکیم کے اتارنے کا یہی مقصد ہے،مگر اس سے ان لوگوں نے چشمِ بصیرت اور چشمِ اعتبار بند کر رکھی ہے اور قرآن مجید کے مفہوم و منطوق کے ساتھ چلنے سے دلوں کو بند کر رکھا ہے۔ اگرچہ آج کے اس دور میں اہلِ زمانہ پر یہ الفاظ گراں گزریں،مگر کل جب چشمِ بصیرت تیز ہو
Flag Counter