Maktaba Wahhabi

683 - 871
والے لفظ کو اس کے معانی میں کسی ایک معنی کی طرف اس بنا پر لوٹانا کہ اس معنی کے دلائل واضح ہوتے ہیں۔ ماتریدی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ تفسیر کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کا قطعیت کے ساتھ فیصلہ کیا جائے کہ لفظ کی مراد یہی معنی ہے،نیز یہ اللہ تعالیٰ پر گواہی دینا ہے کہ اس نے فلاں معنی کو اس لفظ کے ساتھ ادا کیا ہے،جبکہ تاویل محتملات میں سے کسی ایک کو بغیر قطعیت اور شہادت کے ترجیح دینے کا نام ہے۔ ابو طالب تغلبی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ تفسیر حقیقتاً یامجازاً وضعِ لفظ کے بیان کا نام ہے،جبکہ تاویل لفظ کے باطن کی تفسیر کو کہتے ہیں۔یہ اول سے ماخوذ ہے،جس کا معنی ہے کسی معاملے کے انجام کی طرف رجوع کرنا۔گویا تاویل حقیقتِ مراد کی خبر دینے کا نام ہے،جبکہ تفسیر دلیلِ مراد کی خبر دینے کو کہتے ہیں۔مثلاً فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿اِِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ﴾ [الفجر: ۱۴] [بے شک تیرا رب یقینا گھات میں ہے] اس کی تفسیر یہ ہے کہ’’مِرْصَادِ‘‘ رصد سے مفعال کے وزن پر اسم آلہ کا صیغہ ہے،جبکہ اس کی تاویل امرِ الہٰی میں تہاون اور سستی کرنے سے تنبیہ اور خبردار کرنا ہے۔ اصبہانی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ تفسیر کا مطلب ہے قرآن کے معانی کو واضح کرنا اور اس کی مراد کو بیان کرنا،عام اس سے کہ وہ لفظ کے اعتبار سے ہو یا معنی کے لحاظ سے۔قرآن مجید میں اکثر تاویل ہوتی ہے،جبکہ تفسیر کا استعمال غریب الفاظ یا موجز کلام میں ہوتا ہے،تاکہ اس کی شرح واضح ہو جائے یا ایسے کلام میں جو کسی قصے کو متضمن ہو اور اس قصے کو جانے بغیر اس معنی مراد کی تصویر کشی نہ ہوتی ہو۔ تاویل کا استعمال کبھی عام اور کبھی خاص ہوتا ہے،جیسے لفظ کفر ہے۔کبھی تو یہ مطلق کفر کے معنی میں آتا ہے اور کبھی باری تعالیٰ کے انکار کے ساتھ خاص ہوتا ہے یا کسی ایسے لفظ کے لیے جو مختلف معانی کے درمیان مشترک ہو۔ بعض نے کہا ہے کہ تفسیر روایت سے متعلق ہوتی ہے،جبکہ تاویل درایت کے متعلق ہوتی ہے۔قشیری رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ تفسیر اس سماع،اتباع اور استنباط پر منحصر ہے،جس کا تفسیر کے ساتھ تعلق ہو۔ایک جماعت کا کہنا ہے کہ کتاب و سنت میں جو کچھ مبین اور واضح واقع ہوا ہے،وہ تفسیر ہے اور کسی کو یہ مجال نہ ہو کہ وہ اپنے اجتہاد کے ساتھ اس میں کوئی تعرض کر سکے،بلکہ اس کے وارد شدہ معنی
Flag Counter