Maktaba Wahhabi

692 - 871
گیا ہے،جیسے کحالت کو طب سے اور فرائض کو فقہ سے اور اس کی قیدِ حیثیت کو اس علم سے خارج کر دیا گیا ہے تو یہ تعریف جامع نہ رہی۔اگر کہیں کہ اس سے مقصود علمِ قراء ت کو الگ کرنے کے بعد علمِ تفسیر کی تعریف ہے تو ہم کہیں گے کہ اس صورت میں شرح مشروح کے مناسب نہ ہو گی،کیونکہ تفسیر میں اس چیز سے متعلق بھی بحث کی جاتی ہے،جس سے معنی میں تغیر و تبدل راہ نہیں پاتی۔ 2۔دوسری وجہ یہ ہے کہ مراد سے مقصود اگر مطلق کلام ہو تو علومِ ادبیہ اس میں داخل ہو جاتے ہیں اور اگر مرادِ الہٰی کلامِ قدیم کے ساتھ ہے پس اگر مراد نفس الامری ہے تو تفسیر کی بحث اس کا فائدہ نہ دے گی،کیونکہ غالباً اس کا طریقہ روایت آحاد یا بہ طریقِ عربیت درایت ہے،جبکہ یہ دونوں ظنی ہیں اور ہر ایک کا فہم اس کی استعداد کے مطابق ہو گا اور اگر مرادِ الہٰی مفسر کے گمان کے ساتھ ہے تو یہ دو وجہ سے محل نظر ہے۔پہلی وجہ یہ ہے کہ یہ تعدد درحقیقت نوعی تعدد نہیں ہے،بلکہ یہ تعدد اختلافِ قوابل کے ساتھ مختلف جزئیات میں تعدد پایا جاتا ہے۔ شیخ قونوی رحمہ اللہ نے ﴿مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن﴾ کی تفسیر میں کہا ہے کہ وہ سبب معانی جن کے ساتھ اہلِ علم نے روایتاً یا درایتاً لفظِ قرآن کی تفسیر کی ہے اور یہ روایت و درایت بھی صحیح ہو تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی یہی مراد ہو گی،لیکن مراتب و قوابل کے اعتبار سے نہ کہ ہر ایک کے حق میں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ذہن الفاظ کے معانی سے اس چیز کی طرف جاتے ہیں،جو نفس الامر میں معروف ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے متعلق کہا جائے کہ یہ اس پر دلالت کرتا ہے،جس سے یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مراد ہے۔ 3۔تیسری وجہ یہ ہے کہ اہلِ علم کے عرف میں متعارف میں بحث کرنے والے علم کی عبارت اصول و قواعد یا اس کے ملکے کی طرف لوٹتی ہے اور خود علمِ تفسیر کے منضبط قواعد نہیں ہیں،جن پر جزئیات کی تفریع کی جا سکے سوائے نادر مقامات کے۔پس مذکورہ بالا یہ تعریفیں ان کے سوا دیگر جگہوں کو متناول نہیں مگر عنایت تامہ اور مشقت و تکلف کے ساتھ۔ لہٰذا علمِ تفسیر کی تعریف میں بہتر یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ وہ قرآنیت کے اعتبار سے کلامِ الٰہی کے احوال کی معرفت کا نام ہے،نیز انسانی طاقت کے مطابق اس حیثیت سے کہ اس کی معلوم یا مظنون پر دلالت کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی مراد یہ ہے،اور یہ بیان کی تمام اقسام کو متناول ہے۔
Flag Counter