Maktaba Wahhabi

815 - 871
کبھی وہ اس میں نظمِ کلام کی صورتوں سے ایسے اختلافاتِ غیر متواترہ کی حیثیت سے بحث کرتے ہیں،جو شہرت کی حد تک پہنچے ہوتے ہیں۔اس کے اصول مقدمات مشہورہ یا ایسے آحاد طرق سے مروی ہوتے ہیں جن پر پورا وثوق ہوتا ہے۔ جعبری رحمہ اللہ نے شاطبیہ کی شرح میں لکھا ہے کہ قراء نے قراء ت کے تسمیہ پر امام کے نام کے ساتھ اور مطلق اخذ کے لیے روایت اور راوی سے طریقِ اخذ کی اصطلاح بنائی ہے۔چنانچہ وہ کہتے ہیں قراء تِ نافع،روایتِ قالون اور طریقِ ابی نشیط،تاکہ اختلاف کا منشا معلوم ہو جائے۔چنانچہ ہر امام کا راوی ہے،اسی طرح ہر راوی کا ایک طریق ہے۔انتھیٰ۔ ابن الجزری رحمہ اللہ نے’’نشر‘‘ میں لکھا ہے کہ سب سے پہلے معتبر امام جنھوں نے اپنی کتاب میں قراء ات کو جمع کیا،وہ ابو عبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ ہیں۔میرا گمان یہ ہے کہ انھوں نے سات قراء توں کے ساتھ ساتھ پچیس قراء تیں قرار دی ہیں۔وہ ۲۲۴؁ھ میں وفات پا گئے تھے۔[1] انتھیٰ۔ اس موضوع پر ایک کتاب’’قراء ۃ ابن محیض‘‘ ہے،جو ابو علی حسن بن محمد اہوازی رحمہ اللہ (المتوفی: ۴۴۶؁ھ) کی تالیف ہے۔اسی طرح’’قراء ۃ أبي عمرو‘‘ یہ شہاب الدین احمد بن وہبان رحمہ اللہ کا قصیدہ ہے،اس کی شرح شمس الدین محمد بن سعید بن طاہر بجائی رحمہ اللہ اور محمد بن علی معروف بہ مغربی رحمہ اللہ نے تالیف کی ہے اور اس کا نام’’النکت الفریدۃ والدرر الفریدۃ‘‘ رکھا ہے۔ قراء ۃ الثلاثۃ في الأئمۃ الثلاثۃ: یہ محمد عمری عدوی رحمہ اللہ کا ایک لمبا قصیدہ ہے،جو انھوں نے شاطبیہ کے بحر و قافیہ پر نظم کیا،پھر بعد میں اس کی شرح لکھی۔اسی طرح ایک کتاب’’قراء ۃ الحسن البصري و یعقوب‘‘ اہوازی رحمہ اللہ کی تالیف بھی ہے۔ القراء ات الشاذۃ: اس کو شمس الدین محمد بن محمد جزری رحمہ اللہ (المتوفی: ۸۳۳؁ھ) نے نظم کیا۔یہ شاطبیہ کی مانند ہے،اس کا آغاز اس طرح ہوتا ہے:’’بدأت بحمد للّٰہ نظمي أولا…الخ‘‘ انھوں نے رمضان ۷۹۷؁ھ میں اس کو مکمل کیا۔ قراضۃ الإبریز في الأمثال المستخرجۃ من الکتاب العزیز: یہ علامہ بدرالدین حسن بن المغراۃ رحمہ اللہ کی تالیف ہے۔
Flag Counter