Maktaba Wahhabi

156 - 548
جنگی تدبیروں کی تنفیذ کے مقامات کو افضلیت اہمیت دینا۔ میدان جنگ سے ہٹ کر رہنا۔ جنگ کے طریقوں کو ترقی یافتہ بنانا۔ کمانڈروں کو پیغام رسانی اور ان سے پیغام کے حصول کے ذرائع کی حفاظت۔ ٭ خلیفہ کی زیرکی[1] : چنانچہ ابتدائی فتوحات میں اسلامی جنگی منصوبوں میں زیرکی و چالاکی، فہم و فراست اور تدبیر والی عقل کے مالک ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا امتیازی کردار رہا، جنگی منصوبہ بندی میں ان کی وسیع تر سمجھ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لمبی صحبت معاون رہی، آپ نبوی تعلیم و تربیت کے فیض یافتہ تھے، چنانچہ آپ کو بہت سارے علوم اور مختلف تجربات حاصل تھے، وفات نبوی کے بعد خلافت کی ذمہ داریوں کو بہت اچھے ڈھنگ سے نبھایا، آپ کو بیدار بصیرت حاصل رہی، لشکروں کو قیمتی نصیحتوں سے نوازتے رہے، بروقت کمک بھیجتے رہے، جن سے مجاہدین کو مدد ملتی رہے، ان میں بلند ہمت اور حوصلہ پیدا ہوتا رہے۔[2] بلاشبہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی تربیت کتاب اللہ اور نبوی طریقے کی روشنی میں ہوئی۔ آپ نے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقوں کو اچھی طرح اپنایا، ان میں سرفہرست ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ ثانیاً:… عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہد میں عمر رضی اللہ عنہ اہل بیت کی بڑی قدر کرتے تھے، انھیں اپنے اہل خانہ اور بیٹوں پر ترجیح دیتے تھے، اس سلسلے میں ان کے بہت سارے واقعات ہیں، ان میں سے بعض درج ذیل ہیں: ۱۔آپ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے زیادہ اجازت کے حق دار ہیں: حسین بن علی رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دن مجھ سے کہا: اے میرے لاڈلے کاش تم ہمارے پاس آتے رہتے، ایک دن میں آیا آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تنہائی میں تھے، اور ابن عمر رضی اللہ عنہ دروازے پر تھے، انھیں اجازت نہیں دی گئی، چنانچہ میں بھی لوٹ گیا بعد میں پھر ان کی مجھ سے ملاقات ہوئی، کہا: اے میرے لاڈلے میں تمھیں اپنے پاس آتا نہیں دیکھتا، میں نے کہا: میں آیا تھا، آپ معاویہ ( رضی اللہ عنہ ) کے ساتھ تنہائی میں تھے، ابن عمر رضی اللہ عنہما کو لوٹتے ہوئے دیکھا تو میں بھی لوٹ گیا، توآپ نے فرمایا: تم عبداللہ بن عمر سے زیادہ اجازت کے حق دار ہو، ہمارے سروں میں جو بھی دینی سمجھ اور بصیرت ہے یہ اللہ کی پھر تم لوگوں کی دین ہے، اور
Flag Counter