Maktaba Wahhabi

431 - 548
کرتے اور قبول کرلینے پر اصرار کرتے رہے، مگر بدوی واپس کرنے پر مصر رہا، جب عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما نے یہ معاملہ دیکھا تو کہا ہمیں دیکھنا چاہیے کہ وہ کیا چاہتا ہے؟ جو ہم نے دے دیا ہم نہیں چاہتے کہ وہ ہمیں واپس لوٹا دیا جائے، چنانچہ وہ اٹھا ایک گوشے میں جاکر دو رکعت نماز پڑھی، پھر اٹھا، گھوڑے پر سوار ہوا، اور اپنے تیر و کمان نکال لیے، عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا: یہ دو رکعت نماز کیسی؟ کہا:میں نے اس میں تم سے لڑنے سے متعلق اپنے رب سے استخارہ کیا ہے۔ پوچھا: تو تمھیں کس چیز کا اشارہ ملا ہے؟ کہا: اچھائی ہی کا اشارہ ملا ہے، الایہ کہ تم اپنے دنانیر واپس لے لو، اور ہماری مہمان نوازی کو قبول کرلو، جواب میں عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ہم ایسا کریں گے، چنانچہ دنانیر واپس لے لیے گئے، بدوی مڑ کر واپس جانے لگا تو اس سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا ہم تمھیں(کھانا کا) توشہ نہ دے دیں ؟ اس نے کہا: قبیلہ قریب ہے تو کیا کوئی ضرورت ہوسکتی ہے؟ کہا: ہاں، پوچھا: کیا؟ کہا: (توشہ نہ دینے کی صورت میں) تم بیوی سے ہمارے برے سلوک کو بتاؤ گے، اس پر بدوی ہنس پڑا اور مڑ کر واپس چل دیا، اس کے بعد عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ یزید بن معاویہ کے پاس آئے اور بدوی کا واقعہ بیان کیا تو یزید نے کہا: میں نے اس سے زیادہ تعجب خیز بات نہیں سنی۔[1] ۷۔فضول خرچی کرنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا: ایک عورت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کے پاس ایک ٹوکری میں ایک مرغی لے کر آئی جو ذبح کی ہوئی تھی، اور اس کے پر نکال دیے گئے تھے، آپ سے کہا: میرے باپ آپ پر قربان ہوں، یہ مرغی میری بیٹی کی طرح مجھے بہت محبوب تھی، میں اس کے انڈے کھاتی تھی، اوریہ میری انسیت کا سامان تھی، چنانچہ میں نے قسم کھائی تھی کہ حسب استطاعت سب سے اچھی جگہ میں اس کو دفن کروں گی، اللہ کی قسم آپ کے پیٹ سے اچھی کوئی دوسری جگہ نہیں، آپ نے کہا: اسے لے لو، اور اس کو اتنا گیہوں، اتنی کھجور، اتنے درہم دے دو، آپ نے مختلف چیزیں گنائیں، اس پر اس عورت نے کہا: آپ پر میرے باپ قربان ہوں، اللہ تعالیٰ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔[2] ۸۔مدینہ کی بازار میں آئے ہوئے سامان کا نہ بکنا: بصرہ کا ایک شخص شکر لے کر مدینہ آیا، شکر بک نہیں رہی تھی، چنانچہ اس نے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا، آپ نے اپنے خزانچی کو حکم دیا کہ وہ خرید کر تقسیم کردے۔[3] دوسری روایت کے مطابق لوگوں نے اس آدمی سے کہا: عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کے پاس جاؤ، وہ آپ کے پاس آیا آپ نے اس سے خرید لی اور کہا: جو چاہے لے لے، اس آدمی نے کہا: میں بھی لے لوں ؟ آپ نے کہا: لے لو۔[4]
Flag Counter