Maktaba Wahhabi

438 - 548
(۴) جناب معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی مصالحت حسن رضی اللہ عنہ کے لیے عام بیعت انجام پائی، آپ کے ہاتھوں پر آپ کے والد کے ساتھ رہنے والے گورنروں اور ان تمام لوگوں نے بیعت کی جنھوں نے آپ کے والد کے لیے بیعت کی تھی۔ آپ نے بحیثیت خلیفہ ذمہ داریوں کو سنبھالا، گورنروں اور حاکموں کو مقرر کیا، فوجیوں کو منظم کیا، عطیات تقسیم کیے، مجاہدوں کے عطیات میں سو سو کا اضافہ کیا، جس سے آپ کو ان کی خوشنودی حاصل ہوگئی۔[1] آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف ایک خونریز جنگ چھیڑ سکتے تھے، سیاسی، فوجی، اخلاقی اور دینی حیثیت سے آپ کی منفرد شخصیت اس سلسلے میں آپ کی معاون ثابت ہوتی، ساتھ ہی ساتھ دوسرے اسباب وعوامل بھی معاون ہوتے جیسے قیس بن سعد بن عبادہ، حاتم بن عدی طائی وغیرہ رضی اللہ عنہم جیسے جرنیلوں کا موجود ہونا، جو فوجی قیادت کی بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے، ان سب کے باوجود حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے امن وامان اور صلح و مصالحت کو ترجیح دی تاکہ خونریزی سے بچاؤ، امت کا اتحاد، دنیاوی حکومت سے بے رغبتی، اللہ کی رضااور ان جیسے دوسرے مقاصد (جن کی تفصیل آرہی ہے) حاصل ہوسکیں۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے مصالحت کے منصوبے کو آگے بڑھایا جس کے نتیجے میں امت متحد ہوگئی، معاملے کی باگ ڈور آپ کے اور آپ کے مؤیدین کے ہاتھوں ہی میں رہی، صحیح بخاری کی روایت کے مطابق آپ کی فوجی طاقت مضبوط تھی، عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اس بات کو اپنے اس قول میں بیان کیا ہے: ((إِنِّیْ لَأَرَی کَتَائِبَ لَاتَوَلَّی حَتّٰی تَقْتَلَ أَقْرَانُہَا۔)) [2] ’’بلاشبہ میں ایسی فوجوں کو دیکھ رہا ہوں جو اپنے دشمنوں کو قتل کیے بغیر واپس ہونے والی نہیں ہیں۔‘‘ حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا قول ہے : ((کَانَتْ جَمَاجِمُ الْعَرَبِ بِیَدِیْ تُحَارِبُ مَنْ حَارَبْتُ وَ تُسَالِمُ مَنْ سَالَمْتُ)) [3] ’’عرب سردار میری مٹھی میں تھے، میں جن سے جنگ کرتا ان سے جنگ کرتے، جن سے صلح کرتا ان
Flag Counter