Maktaba Wahhabi

468 - 548
بہترین فہم کی دلیل ہے کہ آپ انجام و نتائج کے اعتبار و رعایت کو اچھی طرح جانتے تھے، اور اس طرح کی اچھی سمجھ کے قرآن مجید میں بہت سارے مظاہر و دلائل ہیں، اللہ تعالیٰ نے نتائج کے تقاضوں کے مطابق بعض احکام مرتب کیے ہیں اس کی مثالیں درج ذیل ہیں: ۱۔مشرکین کو گالی دینے کی ممانعت: ارشاد ربانی ہے: (وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ فَيَسُبُّوا اللَّـهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ) (الانعام:۱۰۸) ’’اور گالی نہ دو ان کو جن کی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں کیوں کہ پھر وہ براہِ جہل حد سے گزر کر اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں گے۔‘‘ باوجودیکہ مشرکین کے معبودان باطلہ کو برا بھلا کہنا جائز ہے اس لیے کہ اس میں باطل کی اہانت اور حق کی نصرت ہے، لیکن صاحبِ حکمت شارع کی نگاہ اسی قریبی مقصد پرنہیں ٹھہری، بلکہ آخر میں اس جائز عمل کے جو غیر مستحسن نتائج سامنے آتے وہاں تک پہنچی، اس لیے مشرکین کے معبودانِ باطلہ کو گالی نہ دینے کا حکم صادر کیا تاکہ وہ انتقاماً اللہ کی شان میں گستاخی نہ کریں، بلاشبہ ان کے معبودوں کی اہانت کی اچھائی، اللہ تعالیٰ کی شان میں ان کے گستاخی کرنے کی خرابی کے مقابلے میں کمتر ہے اور جب خرابی اچھائی سے بڑی ہو تو خرابی کو دور کرنا اچھائی کے حصول پر مقدم ہوگا۔[1] ۲۔بہت بلند آواز سے یا بالکل پست قراء ت سے ممانعت: ارشاد ربانی ہے: (وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلً) (الاسراء:۱۱۰) ’’اور نہ تو تو اپنی نماز بہت بلند آواز سے پڑھ اور نہ بالکل پست آواز سے بلکہ اس کے درمیان کا راستہ تلاش کرلے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے انجام کا لحاظ کرتے ہوئے اپنے نبی کو نماز میں بہت بلند آواز میں قراء ت کرنے سے روک دیا، ا س لیے کہ مشرکین جب آپ کی قراء ت سنیں گے تو یہ چیز انھیں اللہ کی شان میں گستاخی، اس کی کتاب اور دین کو برا بھلا کہنے پرابھارے گی۔[2]
Flag Counter