Maktaba Wahhabi

419 - 548
پڑے، اپنا ہاتھ پھیلایا اور ان دونوں سے بیعت لی۔[1]صحیح بات یہ ہے کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما ہجرت کے سال پیدا ہوئے۔[2] ۹۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے جعفر رضی اللہ عنہ کے بچوں کی خبرگیری: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے کہا: کیا بات ہے، میرے بھائی کے بچے دبلے پتلے ہیں، کیا انھیں فقر و فاقہ لاحق ہے؟ کہا: نہیں، لیکن انھیں نظر بد جلد لگ جاتی ہے، کیا میں ان پر دعا پڑھ کر دم کردیا کروں ؟ پوچھا: کون سی دعا؟ چنانچہ انھوں نے آپ سے دعا ذکر کی، آپ نے فرمایا: پڑھ کر ان پر دم کردیا کرو۔[3] ۱۰۔میری والدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے مجھے وہ قول سکھلایا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں مصیبت کے وقت کہنے کا حکم دیا تھا: عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں: مجھے میری والدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے وہ قول سکھلایا جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں مصیبت کے وقت کہنے کا حکم دیا تھا: ((اَللّٰہُ اَللّٰہُ رَبِّیْ لَا أُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا۔)) [4] ’’اللہ ، اللہ میرا رب ہے، میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔‘‘ ۱۱۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اونٹ کی شکایت: عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن مجھے اپنے پیچھے سوار کرلیا، آپ نے چپکے سے مجھ سے ایک ایسی حدیث بیان کی جسے میں کبھی کسی سے بیان نہ کروں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاحت کے وقت پردے کے لیے کسی اونچی عمارت یا کھجور کے گھنے باغ کو پسند کرتے تھے، چنانچہ ایک دن آپ ایک انصاری کے باغ میں داخل ہوئے، اچانک ایک بیٹھے ہوئے اونٹ نے آواز نکالی اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس کی پیٹھ اور کان پر ہاتھ پھیرنے لگے، تو وہ پرسکون ہوگیا، آپ نے پوچھا: اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ ایک انصاری نوجوان نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ میرا ہے، آپ نے فرمایا: کیا تم اس جانور کے سلسلے میں اللہ سے نہیں ڈرتے، جس نے تمھیں اس کا مالک بنا دیا ہے، اس اونٹ
Flag Counter