Maktaba Wahhabi

505 - 548
وہ لوگ ختم ہوچکے تھے جن کے نام قتل عثمان کی تہمت میں بار بار آتے تھے، اس کے باوجود قتلِ عثمان رضی اللہ عنہ کا معاملہ خلفائے بنوامیہ اور ان کے وزیروں کے ذہنوں میں موجود تھا، رہا بنو امیہ کی جانب سے خون عثمان رضی اللہ عنہ کے بدلہ کا مطالبہ تو یہ بلاشبہ ایک واضح حقیقت ہے۔[1] اسی طرح وہ تمام صحابہ جنھوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے بیعت کی تھی محال تھا کہ اموی حکومت کے منبروں سے علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہا جائے اور وہ سب خاموش رہیں، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ نہ انجام دیں، ان کے نام درج ذیل روایت میں مذکور ہیں، اوزاعی سے مروی ہے وہ کہتے ہیں: بہت سارے صحابہ کرام نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کی تائید کی تھی، انھی میں سے سعد، اسامہ، جابر، ابن عمر، زید بن ثابت، مسلمہ بن مخلد، ابوسعید خدری، رافع بن خدیج، ابو امامہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم ہیں، جن کے نام ذکر کیے گئے ہیں ان سے کئی گنا زیادہ صحابہ کرام نے تائید کی تھی، وہ سب کے سب چراغِ ہدایت اور سراپا علم تھے، نزولِ قرآن کے وقت وہ موجود تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی تفسیر سیکھی تھی، اور تابعین نے بھی تائید کی جن میں سے عبدالرحمن بن اسود بن عبدیغوث، سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر اور عبداللہ بن محیریز رحمہم اللہ تھے، امت محمدیہ کے کسی بھی اتحاد سے ان لوگوں نے اپنا ہاتھ نہیں کھینچا۔[2] صلح کے نتائج: اولاً:… ایک قائد کی ماتحتی میں امت کا اتحاد: امت کی تاریخ میں عام الجماعۃ (اتحاد کا سال) درج ہوگیا، یہ واقعہ امت کے قابل فخر کارناموں میں سے ہے جس پر امت ہمیشہ فخر کرتی رہے گی، پوری امت معاویہ رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں اکٹھی ہوگئی، انھیں خلیفہ تسلیم کرلیا، اختلاف و انتشار کے بعد اس جامع اتحاد پر اچھے مسلمان خوش ہوئے، اس میں اللہ کے بعد سب سے اہم کردار اس مصالحانہ منصوبہ کے منصوبہ ساز حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا تھا، عام الجماعۃ(اتحاد کا سال) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل اور حسن رضی اللہ عنہ کی فضیلتوں میں سے بہت بڑی فضیلت تھی، جن مورخین نے۴۱ھ کو ’’عام الجماعۃ‘‘ قرار دیا ہے، عقاد نے ان پر جو شدید نکتہ چینی ہے اس کاکوئی اعتبار نہیں ہے، نکتہ چینی میں انھوں نے کہا ہے: ایسے مورخین سے زیادہ گمراہ اور جاہل کوئی نہیں ہوگا جنھوں نے ۴۱ھ کو ’’عام الجماعۃ‘‘ قرار دیا ہے، اس لیے کہ یہی وہ سال ہے جس میں معاویہ رضی اللہ عنہ خلافت پر بلاشرکتِ غیرے قابض ہوگئے، اس لیے بھی کہ ابتدائے اسلام میں امت جتنا اس سال گروہوں میں بٹی اور اس کے ہر گروہ میں اختلاف پیدا ہوا اتنا کسی اور
Flag Counter