Maktaba Wahhabi

205 - 548
مروان بن حکم نے امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے اس کارنامے کی تعریف کرتے ہوئے آپ کے صاحبزادے حسن رضی اللہ عنہ سے کہا: غالب ہونے کی صورت میں میں نے آپ کے والد سے زیادہ شریف شخص کو نہیں دیکھا، جنگ جمل میں جیسے ہی ہم پیٹھ پھیر کر بھاگے آپ کی جانب سے اعلان کرنے والے نے اعلان کیا: بھاگنے والے کا پیچھا نہ کیا جائے گا، زخمی کو قتل نہیں کیا جائے گا۔[1] ۱۱۔علی رضی اللہ عنہ کا عائشہ رضی اللہ عنہا کو عزت و احترام کے ساتھ رخصت کرنا: امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے سواری، زاد سفر اور دیگر اسباب مہیا کرکے بڑے احترام سے عائشہ رضی اللہ عنہا کو رخصت کیا، آپ کے ساتھ آنے والوں میں جو بچے تھے ان سب کو آپ کے ساتھ بھیجا سوائے ان کے جو رکنا چاہتے تھے، بصرہ کی معزز چالیس خواتین کو ان کی ہمراہی کے لیے منتخب کیا اور کہا: اے محمد ابن حنفیہ تیار ہو جاؤ اور انھیں پہنچانے جاؤ، چنانچہ جس روز انھوں نے سفر کیا، علی رضی اللہ عنہ آپ کے پاس پہنچے اور کھڑے رہے اور لوگ بھی آئے، عائشہ رضی اللہ عنہا کو لوگوں نے رخصت کیا، آپ نے بھی انھیں رخصت کیا اور فرمایا: اے میرے بچو! ہم میں کوئی ایک دوسرے کا گلہ اور شکایت نہ کرے، اس سلسلے کی کسی بات کے باعث ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرے، اللہ کی قسم ہمارے اور علی کے مابین پچھلے دنوں اگر کچھ غلط فہمی یا شکوہ شکایت رہی تو صرف اسی قدر جتنا ایک خاتون اور اس کے دیوروں کے مابین کبھی کبھی ہوجایا کرتی ہے اور وہ میری عزیزانہ شکایت یا تاثر کے باوجود صلحائے امت میں سے ہیں، اس پر علی رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگو! واللہ ام المومنین نے سچ فرمایا، ہمارے اور ان کے درمیان صرف اسی قدر بات تھی، وہ تمھارے نبی کی دنیا و آخرت میں زوجہ ہیں، علی رضی اللہ عنہ ان کو رخصت کرتے ہوئے ان کے ساتھ میلوں گئے، اپنے بچوں کو چھوڑ کر اس دن کا پورا وقت ان کی خدمت میں گزارا۔ یہ واقعہ روز شنبہ یکم رجب ۳۶ھ کا ہے۔[2] ۱۲۔جو کچھ ہوا اس پر ان کی ندامت: ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:عام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنھیں اسلام کی سبقت حاصل تھی جنگ میں شرکت پر نادم ہوئے، چنانچہ طلحہ و زبیر اور علی رضی اللہ عنہم وغیرہ نادم ہوئے۔ جنگ جمل کے دن ان کا لڑائی کاارادہ نہیں تھا، لیکن ان کی چاہت کے بغیر لڑائی چھڑ گئی۔[3] ا۔ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ جب انھوں نے لوگوں کو تلواروں سے قتل ہوتے ہوئے دیکھا تو کہا:
Flag Counter