Maktaba Wahhabi

204 - 548
’’ہر نبی کے حواری (معاون و مددگار) ہوتے ہیں، میرے حواری زبیر ہیں۔‘‘ اور جب علی رضی اللہ عنہ نے زبیر رضی اللہ عنہ کی تلوار کو دیکھا تو فرمایا: ’’اس تلوار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک سے بہت ساری پریشانیوں کو دور کیا ہے۔‘‘[1] دوسری روایت میں ہے کہ امیر المومنین نے عمرو بن جرموز کو اپنے پاس آنے کی اجازت نہیں دی اور اجازت طلب کرنے والے سے کہا: ابن صفیہ (زبیر رضی اللہ عنہ ) کے قاتل کو جہنم کی خوش خبری سنا دو۔[2]کہا جاتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں عمرو بن جرموز نے خود کشی کرلی۔ دوسری روایت کے مطابق وہ عراق پر مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما کے امیر بننے تک زندہ رہا، چنانچہ وہ آپ سے روپوش ہو گیا، مصعب رضی اللہ عنہ کو بتایا گیا کہ عمرو بن جرموز یہاں چھپا ہے، کیا وہ آپ کو مطلوب ہے؟ آپ نے فرمایا: اس سے کہو کہ وہ کھلم کھلا رہے وہ مامون ہے، اللہ کی قسم میں اس سے زبیر رضی اللہ عنہ کا بدلہ نہیں لوں گا وہ زبیر رضی اللہ عنہ کا ہمسر بنانے کے لائق نہیں۔[3] امیر المومنین نے جنگ جمل کی شام کو قیدیوں کو ایک خاص جگہ میں رکھا، فجر کی نماز پڑھ کر موسیٰ بن طلحہ بن عبید اللہ کو طلب کیا، ان کا استقبال کرتے ہوئے ان کو اپنے قریب کرکے اپنے پاس بٹھایا، ان سے ان کے اور بھائیوں کے حالات پوچھے، پھر ان سے کہا: آپ کی زمین کو قبضہ کرنے کے ارادے سے ہم نے اپنے قبضہ میں نہیں لیا ہے، بلکہ اس ڈر سے قبضہ میں لیا ہے کہ اسے دوسرے لوگ اچک نہ لیں، آپ نے اس کا غلہ دیا اور کہا: اے میرے برادر زاد ہم آپ کی ضرورت پوری کرنے کے لیے تیار ہیں، اسی طرح آپ نے ان کے بھائی عمران بن طلحہ کے ساتھ کیا، چنانچہ ان دونوں نے آپ کے لیے بیعت کرلی، جب قیدیوں نے یہ منظر دیکھا تو وہ بھی علی رضی اللہ عنہ کے پاس بیعت کرنے کے لیے گئے، چنانچہ آپ نے ان سے اور دوسروں سے ایک ایک قبیلہ کرکے بیعت لی۔[4] اسی طرح آپ نے مروان بن حکم کے بارے میں پوچھا اور فرمایا: میرا ان سے قریبی رشتہ ہے، ساتھ ہی وہ نوجوانان قریش کے سردار ہیں، مروان نے حسن، حسین اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کے پاس پیغام بھیجا تھا کہ ان کے بارے میں علی رضی اللہ عنہ سے بات چیت کریں، تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:وہ مامون ہیں، جہاں چاہیں رہیں، لیکن اس عزت افزائی اور شرافت کے بالمقابل ان کی طبیعت جاکر بیعت کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوئی۔[5]
Flag Counter