Maktaba Wahhabi

402 - 548
میں عثمان رضی اللہ عنہ کے بعض محبین کو قتل کردیا تھا۔[1] ابن کثیر کا قول ہے: ’’سیرت نگاروں کے یہاں یہ خبر مشہور ہے، لیکن میرے نزدیک اس کی صحت مشکوک ہے۔‘‘[2] بلاشبہ اس مرحلے میں حتیٰ کہ بصرہ و صفین کے دنوں میں جب کہ طرفین کے مابین جنگ جاری تھی، بے گناہوں کا قتل نہیں ہوا، تو امن کے مرحلے میں بچوں اور بے گناہوں کا قتل کیسے ہوسکتا ہے، بنا بریں مسلمانوں کے دین، اخلاق اور معاملات کے خلاف یہ معاملات قابلِ قبول نہیں ہوسکتے۔[3] اسی طرح دو بچوں کے بسر بن ابی ارطاۃ رضی اللہ عنہ کے قتل کرنے کی روایت کو ابن سعد نے واقدی کے طریق سے ذکر کیا ہے، جب کہ وہ متروک ہے، اور اسے طبری نے بھی اپنی تاریخ میں آنے والی سند سے ذکر کیا ہے۔[4]زیادبکائی سے مروی ہے وہ عوانہ سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں: معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھیجا … یہ سند منقطع ہے، ساتھ ہی ساتھ عوانہ بن حکم اخباری متکلم فیہ ہیں۔[5] ابن عبدالبر نے الاستیعاب[6] میں عبید اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے لڑکے کو بسر بن ابی ارطاۃ رضی اللہ عنہ کے قتل کرنے کا واقعہ ہشام کلبی کے طریق سے ذکر کیا ہے، وہ ابومخنف سے روایت کرتے ہیں، جب کہ وہ دونوں متروک ہیں۔[7] شیعیت میں ہشام بن محمد بن سائب کلبی کے غلو پر سب کا اتفاق ہے، امام احمد کا قول ہے: ’’اس سے کوئی حدیث بیان کرتا ہے؟ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی اس سے حدیث بیان کرتا ہو۔‘‘ دار قطنی کا قول ہے: ’’وہ متروک ہے۔‘‘[8] ابن حبان کا قول ہے: ’’وہ شیعیت میں غلو پسند تھا۔‘‘[9] ابن عساکر کا قول ہے: ’’وہ رافضی اور غیر ثقہ ہے۔‘‘[10]
Flag Counter