Maktaba Wahhabi

159 - 548
’’تہذیب التہذیب‘‘[1] کے مطابق وہ تمام محدثین کے نزدیک کذاب (بہت جھوٹا) ہے۔ بعض لوگو ں کا یہ بھی زعم باطل ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس قدر مارا کہ ’’مُحَسَّنْ‘‘ کی شکل میں جو حمل آپ کے بطن میں تھا ساقط ہوگیا، یہ ایسا جھوٹ ہے جس کا سچائی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انھیں یہ بھی نہ معلوم ہوسکا کہ وہ لوگ حقیقت میں علی رضی اللہ عنہ کو اس طرح مطعون کر رہے ہیں کہ ان پر عمر رضی اللہ عنہ سے متعلق خاموش رہنے اور بزدلی کا ثبوت دینے کی تہمت لگا رہے ہیں، جب کہ وہ بہادر ترین صحابہ کرام میں سے تھے۔[2] بعض عقل مند شیعہ نے اس ہذیان سرائی اور جھوٹ کی صحت کا انکار کیا ہے۔[3] اسی کے ساتھ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ مسند امام احمد کی گزری ہوئی صحیح روایت کے مطابق ’’محسن‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں پیدا ہوئے تھے۔ ۵۔ام کلثوم بنت علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہا کی عمر رضی اللہ عنہ سے شادی: اہل بیت کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت کی بناء پر ان سے عمر رضی اللہ عنہ کی جو محبت تھی دوسروں سے نہیں تھی، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل بیت کے اعزاز اور ان کے حقوق کی رعایت کی وصیت کی تھی، اسی بناء پر عمر رضی اللہ عنہ نے علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما کی صاحبزادی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو پیغامِ نکاح دیا، اور ان کی چاہت و محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہا: اللہ کی قسم روئے زمین پر ان کے ساتھ میں سب سے اچھی رفاقت نبھاؤں گا تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا: بلاشبہ آپ ایسا کریں گے۔ عمر رضی اللہ عنہ مہاجرین کے پاس آئے اور مارے خوشی کے کہنے لگے: مجھے شادی کی مبارکباد دیجیے۔پھر ان سے اپنی شادی کا سبب بتایا کہ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ قیامت کے دن ہر رشتہ و نسب ختم ہوجائے گا سوائے میرے رشتے اور نسب کے، تو میں نے اپنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین رشتے کو پسند کیا۔[4] ابومعاذ اسماعیلی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اس مبارک شادی سے متعلق اہل سنت و اہل تشیع کے مصادر و مراجع میں جو کچھ ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ام کلثوم بنت علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہا سے عمر رضی اللہ عنہ کی شادی ایک حقیقت ہے، چنانچہ میں نے اپنی کتاب ’’سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت و کارنامے‘‘ (طبع الفرقان ٹرسٹ)
Flag Counter