Maktaba Wahhabi

282 - 548
یہ ان چیزوں کے التزام کی مثال ہے جو شرعاً لازم نہیں ہیں۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہما ان کا التزام کرتے تھے، اس طرح کہ آپ نے پچیس مرتبہ پیدل حج کا التزام کیا، اس سے حج کی ادائیگی میں پیدل چلنے کی فضیلت کا پتہ چلتا ہے، اس کی تائید عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی ندامت سے ہوتی ہے کہ آپ اس چیز کو اپنے ایام شباب میں انجام نہ دے سکے جب کہ مشقت کے باوجود حسن رضی اللہ عنہ اس پر مداومت کرتے تھے۔ اس سے آپ کی قوتِ ایمانی اور مزید نیک اعمال کی سچی رغبت کا پتہ چلتا ہے۔ حج میں پیدل چلنے سے مقصود مکہ سے عرفہ اور عرفہ سے مکہ تک پیدل چلنا ہے، اس سے مقصود یہ نہیں کہ حاجی اپنے ملک سے پیدل چل کر حج کے لیے جائے۔[1] حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی سیرت سے سہولت اور آسانی کی صورت میں خانۂ کعبہ کے سفر کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ فرمان نبوی ہے: ((تَابِعُوْا بَیْنَ الْحَجِّ وَ الْعُمْرَۃِ فَإِنَّ مُتَابَعَۃُ بَیْنِہِمَا تَنْقِی الْفَقْرَ وَالذُّنُوْبَ کَمَا یَنْفِی الْکِیْرُ خُبْثَ الْحَدِیْدَ۔)) [2] ’’حج اور عمرے کے تسلسل کو باقی رکھو، ان کا تسلسل فقر اور گناہوں کو ایسے ہی ختم کردیتا ہے جیسے بھٹی لوہے کی میل کچیل کو۔‘‘ اسی لیے بعض روایتوں کے مطابق حسن رضی اللہ عنہ نے پچیس مرتبہ پیدل حج کیا جب کہ آپ کے ساتھ اونٹوں کا قافلہ چل رہا تھا۔[3] آپ کہا کرتے تھے: میں اس بات پر شرم محسوس کرتا ہوں کہ اپنے رب سے اس حال میں ملوں کہ اس کے گھر کا پیدل سفر نہ کیے رہوں۔[4] آپ بہت خاموش طبیعت اور اپنے نانا کے طریقے پر عبادت گزار تھے۔ ۳۔آپ کا زہد و تقویٰ: قرآن سے لگاؤ، اپنے والد امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ کی صحبت اور اس کائنات میں غور و فکر سے حسن رضی اللہ عنہ نے یہ سمجھا کہ دنیا امتحان و آزمائش کی جگہ ہے، آپ قرآن کے تربیت یافتہ تھے، ان آیتوں کو ذہن نشین کرلیا تھا جو دنیا کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں، اس کی ذلت و حقارت اور بعجلت فنا و زوال کو بتلاتی ہیں، آپ روزانہ سورۂ کہف کی تلاوت کرتے اور اس فرمان الٰہی سے گزرتے: (وَدَخَلَ جَنَّتَهُ وَهُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ قَالَ مَا أَظُنُّ أَن تَبِيدَ هَـٰذِهِ أَبَدًا ﴿٣٥﴾الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلً) (الکہف:۴۵، ۴۶)
Flag Counter