Maktaba Wahhabi

527 - 548
ساتھیوں نے (جو معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح نہیں چاہتے تھے) صلح کی شدید مخالفت کی، لیکن آپ نے ان کو بہت اچھا جواب دیا، انھیں ذاتی خواہش سے اوپر اٹھانے کی کوشش کی، نیز معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دست برداری کے لیے خونریزی سے بچاؤ، امت کا اتحاد، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے اس کی چاہت جیسے اسباب کو لوگوں کے سامنے بیان کیا ہے، اور اپنے عظیم منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے پوری امت کی قیادت میں آپ کامیاب رہے، قومی یا غیرقومی کسی طرح کے دباؤ کو قبول نہیں کیا، اور اللہ والے قائدین ایسا ہی کرتے ہیں۔ حسن رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح کرنے میں حق بجانب، کامیاب، صحیح راہ پر اور قابل تعریف تھے، کسی طرح کے حرج، ملامت یا ندامت کا احساس نہیں کرتے تھے، بلکہ وہ اس پر راضی اور خوش تھے۔[1] آپ اپنے اوپر تنقید کرنے والوں کو مضبوط دلیل اور ادب سے بھرپور جواب دیتے تھے۔ چنانچہ ابوعامر سفیان بن لیل نے جب آپ سے کہا: اے مومنوں کو رسوا کرنے والے تم پر سلامتی ہو تو ان سے حسن رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابوعامر ایسا نہ کہو، میں مومنوں کو رسوا کرنے والا نہیں ہوں، لیکن حکومت کے لیے ان سے جنگ کرنا مجھے پسند نہیں تھا۔[2] حسن رضی اللہ عنہ کے قول: ’’العار خیر من النار‘‘[3] (شرمندگی جہنم سے بہتر ہے) نے ہمارے لیے اللہ کی جانب متوجہ ہونے سے متعلق تفقہ کے وسیع دروازے کھولے ہیں، آپ اپنی زندگی میں اس پر عامل رہے، اور اس کے نتائج سے پوری طرح واقف تھے، اس بات کا ظہور آپ کی پسندیدہ چیزوں اور حرکات و سکنات سے ہوتا ہے۔ صلح کے بعد حسن رضی اللہ عنہ کی مدنی زندگی معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دست برداری کے بعد حسن رضی اللہ عنہ نے کوفہ چھوڑ دیا، آپ کے ساتھ آپ کے جو ساتھی اور بنوہاشم کے لوگ تھے ان کو لے کر آپ مدینہ چلے آئے اور وہیں قیام پذیر ہوگئے، معاویہ رضی اللہ عنہ بنوہاشم کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے، حالاں کہ ان کے قائد حسن بن علی رضی اللہ عنہما تھے، اس وقت مدینہ میں بہت سے علماء صحابہ اور ایسے بہت سے تابعین قیام پذیر تھے جو علماء صحابہ کے شاگرد تھے اور انھی کے نقش قدم پر چل رہے تھے۔ یہ لوگ انصار ومہاجرین اور دوسرے لوگوں کا مجموعہ تھے۔ عبادت، لوگوں کی تعلیم اور یاد کردہ حدیثوں کی روایت ان کا اصل مقصد تھا، جو پوری امت کرتی تھی وہی یہ لوگ بھی کرتے تھے، کسی بھی جماعت سے اپنا ہاتھ نہیں کھینچتے تھے، انھی میں سے عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس، ابوہریرہ، ابوسعید خدری اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم تھے،[4] علمی زندگی کے لیے مدینہ کی فضا بہتر تھی، اس لیے کہ اس میں علم کے طالب روایتِ حدیث، تفسیر قرآن
Flag Counter