Maktaba Wahhabi

194 - 548
قتل کے وقت آپ مدینہ میں نہ رہیں، پھر ان کے قتل کے دن کہا کہ جب تک تمام علاقوں اور عربوں کے وفود اور ہر جگہ کی بیعت نہیں آجاتی آپ بیعت نہ لیں، پھر جس وقت یہ دونوں لڑ رہے تھے میں نے آپ سے کہا کہ آپ گھر میں بیٹھے رہیے یہاں تک کہ وہ صلح کرلیں، اگر فساد برپا ہوتا بھی تو دوسروں کے ہاتھوں، آپ نے ان تمام کاموں میں میری بات نہ مانی، تو آپ نے فرمایا: اے میرے لختِ جگر، رہی تمھاری یہ بات کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے محاصرے کے وقت میں مدینہ سے نکل جاتا تو اللہ کی قسم انھی کی طرح ہمارا بھی محاصرہ کرلیا گیا تھا، تمھاری یہ بات کہ جب تک تمام علاقوں کی بیعت نہیں آجاتی آپ بیعت نہ لیں تو معاملہ دراصل مدینہ والوں کا معاملہ تھا، ہمیں یہ پسند نہیں تھا کہ معاملہ ہمارے ہاتھوں سے نکل جائے، رہی تمھاری طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کے خروج کے وقت کی بات تو یہ چیز مسلمانوں کو کمزور کر رہی تھی، اللہ کی قسم جب سے میں خلیفہ بنایا گیا ہوں اسی وقت سے میں مجبور و کمزور ہوں کسی مناسب صورتِ حال تک رسائی نہیں ہو پا رہی ہے، رہی تمھاری بات کہ اپنے گھر میں بیٹھے رہیے، تو اپنی ضروری ذمہ داریوں کے باعث میں ایسا کیسے کرسکتا ہوں، یا تم مجھے کس حالت میں دیکھنا چاہتے ہو؟ کیا تم چاہتے ہو کہ میں اس بجو کے مانند ہوجاؤں جس کا گھیراؤ کرلیا گیا ہو اور ’’دَبَابِ دَبَابِ‘‘[1] کہہ کر اسے بلایا جا رہا ہو، جب میں اپنی ذمہ داریوں کو نہیں نبھاؤں گا تو کون نبھائے گا، اس لیے اے میرے لخت جگر تم ان باتوں سے باز آجاؤ۔ اس واقعے سے اپنے بیٹے کے لیے امیر المومنین کے حسنِ تربیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح آپ نے کوئی دباؤ ڈالے بغیر انھیں اپنی بات کہنے دی۔ پھر امیر المومنین نے ہر اعتراض کا جواب دیا، اسی طرح اس سے حسن رضی اللہ عنہ کے رجحان کا پتہ چلتا ہے کہ بہرقیمت امن و امان برقرار رکھنا اور قوت کے استعمال سے دور رہنا چاہیے۔ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ حق پر رہ کر اس مشکل مرحلے میں پختہ عزم والے تھے، کوئی بھی آپ کو اپنے پختہ عزم سے ہٹا نہ سکا، قاتلینِ عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کی تنفیذ میں توقف کرنے والے تھے، انتظار کر رہے تھے کہ معاملہ ٹھیک ہو جائے پھر قاتلینِ عثمان کے بارے میں سوچیں، چنانچہ جب زبیر و طلحہ رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھیوں نے ان پر قصاص قائم کرنے کا مطالبہ کیا تو آپ نے معذرت کی کہ وہ لوگ کثیر تعداد میں ہیں، ان کی ایک معتد بہ طاقت ہے، آپ نے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ صبر سے کام لیں حالات درست ہوجائیں گے جب امن وامان بحال ہوجائے گا تو حقوق واپس لیے جائیں گے، ایسا اس لیے کہا کہ حالات مصلحتوں کے حصول کے موافق نہیں تھے، امیرالمومنین نے دو برائیوں میں سے کمتر کو اختیار کرنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: قاتلینِ عثمان رضی اللہ عنہ
Flag Counter