Maktaba Wahhabi

196 - 548
اس کے بعد علی رضی اللہ عنہ نے ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو بھیجا، ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے لوگوں پر مؤثر ہونے کے باعث وہ بھی اپنی مہم میں ناکام رہے،[1] پھر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو بھیجا وہ جلد واپس نہ آئے تو عمار بن یاسر اور حسن بن علی رضی اللہ عنہم کو بھیجا، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو معزول کرکے ان کے بدلے قرظہ بن کعب کو والی مقرر کیا۔[2] اہل کوفہ کو مقتنع کرنے میں قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ کا اہم کردار تھا، چنانچہ انھوں نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’میں تمھارا خیرخواہ اور تم پر مہربان ہوں، میں چاہتا ہوں کہ تم صحیح راستے پر آجاؤ، میں تم سے ایک سچی اور حقیقی بات کہہ رہا ہوں کہ ایک خلافت ضروری ہے جو لوگوں کو منظم رکھے، ظالم کو روکے، مظلوم کی عزت کرے، یہ علی رضی اللہ عنہ ہیں اپنی ذمہ داریوں کو نبھا رہے ہیں، کوچ کی دعوت میں وہ عدل و انصاف سے کام لے رہے ہیں، وہ اصلاح کی دعوت دے رہے ہیں، اس لیے کوچ کرو، اس معاملے سے تم اچھی طرح آگاہ و واقف رہو۔‘‘[3] اس سلسلے میں حسن بن علی رضی اللہ عنہما بھی کافی مؤثر رہے، چنانچہ لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’لوگو! اپنے امیر کی پکار پر لبیک کہو، اپنے بھائیوں کی جانب چل پڑو، اس معاملے کے لیے کوچ کرنے والے ملیں گے، اللہ کی قسم! اگر کوچ کرنے والے صاحبِ عقل و دانش ہوں تو نتیجہ و انجام بہتر ہوگا، اس لیے آپ لوگ ہماری دعوت قبول کرلیں اور اپنی و ہماری مصیبت میں ہماری مدد کریں۔‘‘[4] بہت سارے اہل کوفہ نے دعوت پر لبیک کہا، چھ سات ہزار کی تعداد میں عمار و حسن رضی اللہ عنہما کے ساتھ علی رضی اللہ عنہ کی جانب چل پڑے، پھر بصرہ سے قبیلۂ عبدالقیس کے دو ہزار آدمی ان کے ساتھ مل گئے، اس کے بعد دوسرے قبائل کے لوگ آپ کے پاس آتے رہے تا آنکہ جنگ کے وقت آپ کی فوج کی تعداد تقریباً بارہ ہزار تھی۔[5] ’’ذی قار‘‘ میں جب اہل کوفہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ سے ملے تو آپ نے ان سے کہا: ’’اے اہلِ کوفہ تم عجم اور ان کے بادشاہوں کی شان و شوکت کے مالک ہوگئے، تم نے ان کی فوجوں کو تتر بتر کردیا، تاآنکہ ان کا ورثہ تمھیں مل گیا، تم نے اپنی سلطنت کی اعانت کی، لوگ لوٹتے ہوئے
Flag Counter