Maktaba Wahhabi

201 - 548
گئے، پھر انھوں نے اپنا دفاع کیا، ہر فریق بلاشبہ یہ سوچتا تھا کہ دوسرے فریق نے جنگ شروع کی ہے، معاملہ بالکل الجھ کر رہ گیا، ہر فریق اپنے دفاع سے بڑھ کر کچھ نہ کرسکا۔ قاتلینِ عثمان رضی اللہ عنہ برابر جنگ کی آگ بھڑکا رہے تھے، دونوں فریق اپنی غرض و غایت اور مقصد میں حق پر تھے، زبیر رضی اللہ عنہ جنگ کو اپنے حال پر چھوڑ کر واپس چلے گئے، طلحہ رضی اللہ عنہ کھڑے تھے اس مڈبھیڑ کی حقیقت نہیں جان پا رہے تھے کہ ایک انجانا تیر انھیں لگا، یہ تیر آپ کی پنڈلی کے اس زخم کی جگہ لگا جو زخم کہ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جنگ احد میں لگا تھا، چنانچہ لوٹے اور اسی وقت آپ کا انتقال ہوگیا۔ زبیر رضی اللہ عنہ کو جنگ سے لوٹتے ہوئے بصرہ سے ایک دن سے کم کی دوری پر واقع مقام ’’وادی السباع‘‘ میں شہید کردیا گیا، معاملہ ایسا تھا۔[1] خ: امام ذہبی کہتے ہیں: جنگ جمل کو دونوں فریقوں کے بیوقوفوں نے بھڑکایا تھا۔[2] نیز کہتے ہیں: دونوں فریق مصالحت پر آمادہ تھے، علی و طلحہ رضی اللہ عنہما میں سے کوئی بھی جنگ نہیں چاہتا تھا، بلکہ وہ اتحاد کی بات کرنا چاہتے تھے، ایسے میں دونوں فریق کے اوباشوں نے تیر اندازی شروع کردی، جنگ کی آگ بھڑک اٹھی اور لوگ برانگیختہ ہوگئے۔[3] اور ’’دول الاسلام‘‘ میں کہتے ہیں: شورش پسندوں کی جانب سے جنگ چھڑ گئی، اور معاملہ علی، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم کے ہاتھ سے نکل گیا۔[4] ڈاکٹر سلیمان بن حمد عودہ کہتے ہیں: ’’اس کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ جنگ جمل میں سبائیوں کے کردار کی صراحت کرنے والی طبری کی روایت مذکورہ عمومات کی تخصیص کرے اور ان علما کے اقوال میں وارد گروہوں سے کون مراد ہیں ؟ بالتحدید بیان کردے، اس میں کوئی مانع اور رکاوٹ نہیں، اور اگر شورش کرنے والے ان گروہوں کا تعلق براہِ راست سبائیوں سے نہ رہا ہو، ان کے مقاصد بھی مختلف رہے ہوں، تب بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان گروہوں نے زمین ہموار کی، ابن سبا اور اس کے ہم نوا سبائیوں نے اس کا استغلال کیا، جیسا کہ بعض شورش برپا کرنے والی تحریکوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ مفسدوں کا استغلال کرتی ہیں۔‘‘[5] جنگ جمل کے دن حسن رضی اللہ عنہ میمنہ میں تھے، دوسرے قول کے مطابق میسرہ میں تھے، آپ جنگ کو ناپسند کرتے اور اپنے والد کو اسے ترک کرنے کا مشورہ دیتے تھے۔[6]
Flag Counter