یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما آپ کی بیعت کرکے آپ کی اطاعت قبول کرچکے تھے ورنہ بیعت نہ کرنے کی صورت میں آپ انھیں گورنر کیسے بناتے؟ شام کی گورنری سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی معذرت کے بعد امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ نے ان کے بدلے سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کو بھیج دیا، وہ حدود شام پر پہنچے ہی تھے کہ انھیں معاویہ رضی اللہ عنہ کے سواروں نے روک لیا اور کہا: اگر آپ کو عثمان رضی اللہ عنہ نے بھیجاہے تو ہم آپ کا استقبال کرتے ہیں، اور اگر کسی دوسرے نے بھیجا ہے تو لوٹ جائیں۔[1] عثمان رضی اللہ عنہ کے مطلومانہ قتل پر شام والوں کا غیظ و غضب ابال کھا رہا تھا، ان کے پاس آپ کی خون آلود قمیص اور آپ کی بیوی نائلہ کی آپ کے دفاع میں کٹی ہوئی انگلیاں پہنچ چکی تھیں، آپ کی شہادت کا واقعہ بڑا ہی درد ناک تھا، اس نے شعور و احساس اور دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔ انھیں مدینہ، مدینہ پرشورش کرنے والوں کے قابض ہوجانے، اور بنی امیہ کے مکہ چلے جانے کی خبریں پہنچتی رہیں، اس طرح کے حالات و واقعات نے اہل شام اور سرفہرست معاویہ رضی اللہ عنہ کو متاثر کیا، ان کا خیال تھا کہ قاتلین عثمان سے بدلہ کی ذمہ داری انھی پر ہے، وہی آپ کے ولی دم ہیں، اللہ کا فرمان ہے: (وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ ۖ إِنَّهُ كَانَ مَنصُورًا) (الاسراء:۳۳) ’’اور جو شخص مظلوم ہونے کی صورت میں مار ڈالا جائے ہم نے اس کے وارث کو طاقت دے رکھی ہے پس اسے چاہیے کہ مار ڈالنے میں زیادتی نہ کرے، بے شک وہ مدد کیا گیا ہے۔‘‘ اسی لیے معاویہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اکٹھا کرکے ان سے عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں خطاب کیا کہ وہ ظلماً ان بے وقوف منافقوں کے ہاتھوں قتل کردیے گئے جنھوں نے خون حرام کا احترام نہ کیا، بلکہ بلد حرام اور حرمت والے مہینہ میں اسے بہا دیا، نتیجتاً لوگ برانگیختہ ہوگئے، ان کی آوازیں بلند ہونے لگیں، ان میں سے چند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تھے، چنانچہ مرہ بن کعب نامی صحابی اٹھے اور کہا: اگر میں نے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہ سنی ہوتی تو گفتگو نہ کرتا، آپ نے فتنوں اور ان کی قربت کا تذکرہ کیا، اسی وقت کپڑوں میں لپٹے ایک شخص کا گزر ہوا تو آپ نے کہا: یہ اس وقت ہدایت پر ہوں گے، میں ان کے پاس گیا تو وہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے، میں نے ان کی جانب متوجہ ہو کر کہا: آپ ہیں ؟ کہا: ہاں۔[2] ایک دوسری حدیث ہے جو قاتلینِ عثمان سے معاویہ رضی اللہ عنہ کے خون کا مطالبہ کرنے اور اس مقصد کے حصول |
Book Name | سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | ڈاکٹر لیس محمد مکی |
Volume | |
Number of Pages | 548 |
Introduction |