Maktaba Wahhabi

213 - 548
صحیح بات یہ ہے کہ علی و معاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین اختلاف کی بنیاد اس بات پر تھی کہ علی رضی اللہ عنہ کے لیے معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی بیعت قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لینے کے بعد واجب ہوتی ہے یا پہلے، اس کا خلافت سے کوئی تعلق نہ تھا، معاویہ رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھ رہنے والے شام کے لوگوں کی رائے تھی کہ پہلے قاتلین عثمان سے قصاص لیا جائے پھر وہ لوگ بیعت کرلیں گے۔[1] قاضی ابن العربی کا قول ہے: ’’اہل شام و اہل عراق کے مابین جنگ کا سبب ان کی رائے کا اختلاف تھا، اہل عراق علی رضی اللہ عنہ کی بیعت اور امام سے متعلق اتحاد کی دعوت دیتے تھے، اہل شام قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص کا مطالبہ کرتے تھے، اور کہتے تھے، ہم قاتلوں کو پناہ دینے والے کے لیے بیعت نہیں کریں گے۔‘‘[2] ’’لمع الأدلۃ‘‘ میں امام الحرمین جوینی کا قول ہے: ’’معاویہ رضی اللہ عنہ نے اگرچہ علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کی تھی لیکن آپ کی خلافت کے منکر نہ تھے اور نہ ہی اپنے لیے اس کے دعویدار تھے، وہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کا مطالبہ کرتے تھے، اور ان کے خیال میں وہ اپنے مطالبے میں حق بجانب تھے، جب کہ وہ غلطی پر تھے۔‘‘[3] ہیثمی کا قول ہے: ’’معاویہ و علی رضی اللہ عنہما کے مابین جو جنگ ہوئی وہ اس لیے نہیں ہوئی کہ خلافت کے بارے میں ان کے مابین جھگڑا تھا اس لیے کہ علی رضی اللہ عنہ کے خلافت کے زیادہ حق دار ہونے پر اجماع ہے، اس لیے فتنہ اس بنا پر برپا نہیں ہوا بلکہ اس لیے برپا ہوا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے بیعت سے پہلے قصاص کا مطالبہ کیا تو علی رضی اللہ عنہ اس کے لیے تیار نہ ہوئے۔‘‘[4] متعدد روایتیں یہ بتلاتی ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کا مطالبہ کر رہے تھے اور اس بات کی صراحت کر رہے تھے کہ اکثر قاتلینِ عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لے لیا گیا تو وہ علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت قبول کرلیں گے۔ اگر یہ بات فرض کر لی جائے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے خلافت کے لالچ میں علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کی تھی اور قصاص کے مطالبے کو بہانہ بنایا تھا، تو اگر علی رضی اللہ عنہ نے قاتلین عثمان سے قصاص لے لیا ہوتا تو ایسی صورت میں اس کے
Flag Counter