Maktaba Wahhabi

216 - 548
جنگِ صفین کے نتیجے میں ہوئی، اس لیے کہ جس جنگ نے بہت سارے مسلمانوں کو ہلاک کردیا اس کے نتیجے میں یہ اجتماعی رائے سامنے آئی کہ جنگ اور خوں ریزی کو بند کرنا ایسی ضرورت ہے جو دشمن کے مقابلے میں امت کی شان و شوکت اور قوت کو محفوظ رکھنے کا تقاضا ہے، یہ امت کی زندگی و بیداری اور فیصلوں میں اس کے رول کا ثبوت ہے۔[1] امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے جنگِ صفین کو روک دیا، تحکیم پر راضی ہوگئے، اسے فتح تصور کیا اور کوفہ لوٹ گئے، اور تحکیم سے اختلاف کو ختم کرنے، اتحاد پیدا کرنے، حکومت کو مضبوط کرنے، اور نئے سرے سے فتوحات کا سلسلہ شروع کرنے کی بہت ساری امیدیں باندھیں، جنگ صفین کی کارروائیاں ختم ہونے کے بعد امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ مقتولین کا معائنہ کر رہے تھے اسی اثناء میں اپنے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقتولین کے پاس کھڑے ہو کر کہا: اللہ تعالیٰ دونوں فریقوں کے لوگوں کی مغفرت کرے۔[2] یزید بن اصم سے مروی ہے کہ جب علی ومعاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین صلح ہوگئی تو اپنے مقتولین کے پاس پہنچے اور فرمایا: یہ لوگ جنت میں ہوں گے، پھر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقتولین کے پاس گئے تو فرمایا: یہ لوگ جنت میں ہوں گے، معاملہ میرا اور معاویہ کا ہوگا۔[3] ان کے بارے میں کہتے تھے:’’وہ لوگ مومن ہیں ‘‘[4] اہل صفین و اہل جمل کے بارے میں آپ کا قول ایک جیسا ہے۔[5] مروی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ ان کے دو ساتھی اہل شام کو برا بھلا کہتے اور لعن طعن کرتے ہیں تو انھیں پیغام بھیج دیا کہ اس حرکت سے باز آجاؤ، چنانچہ وہ دونوں آپ کے پاس آئے اور کہا: اے امیر المومنین! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں ؟ آپ نے کہا: اللہ کی قسم کیوں نہیں، دونوں نے کہا: تو آپ ہمیں ان کے سب و شتم اور لعن طعن سے کیوں روکتے ہیں ؟ آپ نے کہا: تم لوگوں کا لعن طعن کرنے والا ہونا مجھے پسند نہیں ہے، بلکہ تم لوگ کہو: ((اَللّٰہُمَّ احْقِنْ دِمَائَ نَا وَ دِمَائَ ہُمْ وَ أَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا وَبَیْنَہُمْ وَ أَبْعِدْہُمْ مِنْ ضَلَالَتِہِمْ حَتّٰی یَعْرِفَ الْحَقَّ مِنْ جَہْلِہٖ وَ یرَعَوِیْ عَنِ الْغَيِّ مِنْ لَجَجٍ بِہِ۔))[6]
Flag Counter