Maktaba Wahhabi

221 - 548
ج: قاضی ابوبکر ابن العربی رحمہ اللہ اس آیت {وَ إِنْ طَائِفَتَانِ} کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں: یہ آیت مسلمانوں سے جنگ کرنے اور تاویل کرنے والوں سے لڑنے میں اصل و بنیاد ہے اسی پر صحابہ کرام کا اعتماد تھا، اس امت کے اعیان نے اسی کا سہارا لیا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول: ’’تَقْتُلُ عَمَّارَانِ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ ‘‘ میں اسی آیت کو مراد لیا ہے۔[1] ح: ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول ہے: یہ حدیث علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی صحت اور آپ کی اطاعت کے وجوب کی دلیل ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کی اطاعت کی دعوت دینے والا جنت کی دعوت دینے والا ہے اور آپ سے جنگ کی دعوت دینے والا اگرچہ تاویل کرنے والا ہو جہنم کی دعوت دینے والا ہے، وہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ علی رضی اللہ عنہ سے جنگ جائز نہ تھی، اسی بنا پر تاویل کرتے ہوئے ان سے جنگ کرنے والا حق پر نہیں تھا، اور بلا تاویل جنگ کرنے والا باغی تھا، اس لیے ہمارے نزدیک صحیح ترین بات یہی ہے کہ جنھوں نے علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کی وہ حق پر نہیں تھے، یہی ہمارے ائمہ کا مذہب ہے، اور ان فقہاء کا مذہب ہے جنھوں نے اس کی بناء پر تاویل کرنے والے باغیوں سے لڑنے کو جائز قرار دیا ہے۔[2] نیز انھی کا قول ہے: یہ جانتے ہوئے کہ علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے، اور یہ کہ حدیث کے مطابق عمار رضی اللہ عنہ کو باغی گروہ نے قتل کیا ہے، ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم منجانب اللہ آنے والی تمام باتوں پر ایمان رکھیں، پورے پورے حق کا اقرار کریں، ہماری خواہش نفس کا کوئی دخل نہ ہو، بغیر علم کے ہم بات نہ کریں، بلکہ علم و عدل کا راستہ اپنائیں یہی اتباع کتاب و سنت ہے۔ بعض حق کو تھام لینا اور بعض کو چھوڑ دینا ہی اختلاف و انتشار کی جڑ ہے۔[3] خ: عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ حدیث عمار ’’تَقْتُلُ عَمَّارَانِ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ ‘‘ کے بارے میں کہتے ہیں: انھیں معاویہ و اصحاب معاویہ رضی اللہ عنہم نے جنگ صفین میں قتل کردیا اس لیے وہ لوگ باغی ہیں، لیکن مجتہد ہیں، ان کا خیال تھا کہ وہ عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کے مطالبے میں حق پر ہیں۔[4] د: سعید حوی کا قول ہے: عمار رضی اللہ عنہ جن کے بارے میں نصوص صراحت سے وارد ہیں کہ انھیں باغی گروہ قتل کرے گا، ان کے قتل کے بعد باغیوں کو پتہ چل گیا کہ علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے اور ان کے ساتھ مل کر جنگ کرنا واجب تھا، اسی لیے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے پیچھے رہ جانے پر افسوس کا اظہار کیا ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ باغیوں کے خلاف خلیفہ برحق کی مدد نہ کرسکے۔ یہی فقہاء کا فتویٰ ہے۔[5] حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو پختہ یقین تھا کہ ان
Flag Counter