Maktaba Wahhabi

244 - 548
اگر علی رضی اللہ عنہ کی امامت پر من جانب اللہ تنصیص ہوتی تو کسی بھی حال میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے لیے جائز نہ ہوتا کہ لوگوں سے کہیں ’’دَعُوْنِیْ وَ الْتَمِسُوْا غَیْرِیْ‘‘ (مجھے چھوڑ کر دوسرے کو تلاش کرو) اور : ’’اَنَا لَکُمْ وَزِیْرًا خَیْرٌلَّکُمْ مِّنِّیْ اَمِیْرًا‘‘ (تمھارے لیے میرا وزیر ہونا خلیفہ ہونے سے بہتر ہے) ایسا کیسے ہوسکتا ہے، جب کہ لوگ آپ کو چاہتے تھے اور آپ سے بیعت کرنے آرہے تھے۔[1] ’’نہج البلاغۃ‘‘ میں اس سے بھی زیادہ صریح اور واضح قول موجود ہے: ’’جن لوگوں نے ابوبکر و عمر اور عثمان( رضی اللہ عنہم ) کے لیے بیعت کی تھی انھوں نے میرے ہاتھ پر انھی اصولوں کے مطابق بیعت کی ہے جن اصولوں پر وہ ان کی بیعت کرچکے تھے اور اس کی بنا پر جو حاضر ہے اسے نظر ثانی کا حق نہیں، اور جو بروقت موجود نہ ہو اسے رد کرنے کا اختیار نہیں اور شوریٰ کا حق صرف مہاجرین و انصار کو ہے، ان کا اگر کسی پر اتفاق ہو جائے اور اسے خلیفہ سمجھ لیں تو اسی میں اللہ کی رضا و خوشنودی سمجھی جائے گی، اب جو کوئی اس کی شخصیت پر اعتراض یا نیانظریہ اختیار کرتا ہوا الگ ہوجائے تو اسے وہ سب اسی طرف واپس لائیں گے جدھر سے وہ منحرف ہوا ہے، اور اگر انکار کرے تو اس سے لڑیں گے کیوں کہ وہ مومنوں کے طریقے سے ہٹ کر دوسری راہ پر ہو لیا ہے، اور جدھر وہ پھر گیا ہے ، اللہ تعالیٰ بھی اسے ادھر ہی پھیر دے گا۔‘‘[2] امیر المومنین نے اس عبارت سے چند قابل توجہ حقائق کی جانب اشارہ کیا ہے: ٭ آپ نے واضح کردیا کہ مجلس شوریٰ میں مہاجرین و انصار صحابہ کرام ہوں گے، وہی اصحابِ حل و عقد ہوں گے۔ ٭ ان کا کسی شخص پر متفق ہونا اللہ کی رضا کا باعث اور من جانب اللہ ان کی موافقت کی علامت ہوگا۔ ٭ ان کے زمانے میں ان کے بغیر، اور ان کے انتخاب کے بغیر امامت و خلافت منعقد نہیں ہوگی۔ ٭ ان کی بات کا انکار اور ان کی حکم عدولی، بدعتی، باغی اور غیرایمانی راہ اختیار کرنے والا ہی کرسکتا ہے، یہ اہم تصریحات شیعہ اثنا عشریہ پر کس طرح مخفی رہیں۔[3] تنصیص کا مسئلہ کسی طرح بھی ثابت نہیں ہے، اور چند لوگوں میں امامت کو محصور کرنے کا مسئلہ کتاب و سنت کی روشنی میں مردود ہے، اسی طرح عقل اور حقیقت واقعہ بھی اسے قبول نہیں کرتی، اس لیے کہ متعینہ عدد کے ختم ہوجانے کے بعد کیا امت بغیر امام کے رہے گی؟ اثنا عشریہ کے نزدیک ائمہ کا زمانہ ڈھائی صدی سے کچھ زیادہ
Flag Counter