Maktaba Wahhabi

294 - 548
سخت کلامی کرنے لگے، آپ خاموش رہے، مروان نے اپنے داہنے ہاتھ سے ناک جھاڑی تو حسن رضی اللہ عنہ نے کہا: تیرا برا ہو، کیا تمھیں معلوم نہیں کہ دایاں ہاتھ چہرے کے لیے ہے، اور بایاں ہاتھ شرمگاہ کے لیے، چنانچہ مروان چپ ہوگئے۔[1] جب تک معاملہ ذاتی رہا، حسن رضی اللہ عنہ چپ رہے، جب مروان نے سنت نبوی کی مخالفت کی تو اللہ کے لیے اور سنت نبوی کی مخالفت کے باعث ناراض ہوگئے اور جو درست بات تھی وہ بیان کردی۔[2] جب آپ کا انتقال ہوا تو آپ کے جنازے میں مروان بن حکم رونے لگے، ان سے حسین رضی اللہ عنہ نے کہا: تم ان پر رو رہے ہو جب کہ انھیں بار بار غصہ دلایا کرتے تھے؟ اس پر انھوں نے پہاڑ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’میں ایسا اس سے بھی زیادہ بردبار شخص کے ساتھ کرتا تھا۔‘‘[3] ابن عائشہ ذکر کرتے ہیں کہ ایک شامی شخص کا بیان ہے: میں مدینہ پہنچا، خچر پر سوار ایک شخص کو دیکھا، میں نے اس سے اچھا چہرے مہرے، کپڑے اور سواری والا نہیں دیکھا، میرا دل اس کی جانب مائل ہوگیا، میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا، یہ حسن بن علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ ہیں، یہ سن کر میرا دل ان کے بغض سے بھر گیا، اور مجھے علی رضی اللہ عنہ پر حسد آنے لگا کہ ان کا اس طرح کا کوئی بیٹا ہے، میں ان کے پاس گیا، پوچھا: کیا تم علی بن ابوطالب( رضی اللہ عنہ ) کے بیٹے ہو؟ کہا: ہاں، میں ان کا بیٹا ہوں۔ میں نے کہا: تمھاری اور تمھارے باپ کی ایسی تیسی، میں انھیں گالی دینے لگا، جب میری بات ختم ہوئی تو انھوں نے مجھ سے کہا: شاید آپ یہاں کے رہنے والے نہیں ہیں ؟ میں نے کہا: ہاں، کہا: آپ ہمارے پاس آیے، اگر آپ کو ٹھہرنے کی جگہ چاہیے تو ہم آپ کو دیں گے، اگر آپ کو پیسے کی ضرورت ہے تو ہم آپ کے لیے مہیا کریں گے، اور اگر کوئی اور ضرورت ہے تو ہم آپ سے تعاون کریں گے، اس آدمی کا بیان ہے کہ جب میں آپ کے پاس سے واپس ہونے لگا تو روئے زمین پر ان سے زیادہ پسندیدہ کوئی شخص میرے نزدیک نہیں تھا، ان کے اور اپنے کیے پر کچھ نہ سوچا بلکہ ان کا شکریہ ادا کیا، اور اپنے آپ پر نادم ہوا۔[4] ان بہترین کارناموں سے حسن رضی اللہ عنہ کی بردباری کا پتہ چلتا ہے، اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس آیت (خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ)(الاعراف:۱۹۹) (آپ در گزر کا طریقہ اختیار کریں، نیک کام کی تعلیم دیں، جاہلوں سے نہ الجھیں) پر عمل کرتے ہوئے اور اپنے نانا کی اقتداء کرتے ہوئے مخالفین کو کس طرح، ان کے ساتھ بھلائی اور نرمی کرکے، ان کی تکلیف پر صبر کرکے، ان کی بھلائی چاہتے ہوئے اپنا
Flag Counter