Maktaba Wahhabi

298 - 548
الْمُسْلِمِیْنَ۔)) [1] ’’میرا یہ لاڈلا -آپ کی مراد حسن رضی اللہ عنہ سے تھی- سردار ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کی دو جماعتوں کے مابین صلح کرائے گا۔‘‘ سعید بن ابوسعید سے مروی ہے کہتے ہیں: ہم ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، حسن بن علی رضی اللہ عنہما آئے، ہم سے سلام کیا، ہم نے سلام کا جواب دیا، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو علم نہ ہو سکا، وہ چلے گئے تو ہم نے کہا: اے ابوہریرہ! یہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما تھے جنھوں نے ہم سے سلام کیا ہے، چنانچہ وہ کھڑے ہوئے اور ان سے جاملے اور کہا: یا سیدی (اے میرے سردار) میں نے ان سے کہا: آپ ’’یا سیدی‘‘ کہتے ہیں ؟ اس پر انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا ہے: ((اِنَّہٗ لَسَیِّدٌ۔)) [2] ’’بلاشبہ وہ سردار ہیں۔‘‘ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں: جو چاہتا ہو کہ جنتی جوانوں کے سردار کو دیکھے تو اسے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو دیکھنا چاہیے۔[3] ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلْحَسَنُ وَ الْحُسَیْنُ سَیِّدَا شَبَابِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ۔)) [4] ’’حسن و حسین رضی اللہ عنہما جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔‘‘ جنت میں حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے سردار ہونے کی خبر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی تعداد سے منقول ہے، ایسا اس لیے ہوا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی بڑی محفلوں میں اور بارہا اس کا ذکر کیا ہے۔[5] حالات اور مرور ایام نے ثابت کردیا کہ حسن رضی اللہ عنہ میں سرداری کی صفت پائی جاتی ہے، جب توفیق الٰہی سے آپ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح کرلی اور امت کو متحد رکھا تو آپ کی سرداری کی صفت اپنی انتہا کو پہنچ گئی، حسن رضی اللہ عنہ کی سیرت سے پتہ چلتا ہے کہ حقیقی سرداری ظلم و زیادتی، خوں ریزی اور مال وعزت تباہ کرکے نہیں ملتی، بلکہ سرداری مال وعزت کو محفوظ کرکے، بغض و عداوت کو دور کرکے حاصل ہوتی ہے، آپ کی مصالحت اور مسلمانوں
Flag Counter