Maktaba Wahhabi

325 - 548
((مَنْ قَالَ حِیْنَ یَسْمَعُ الْمُؤَذِّنَ: وَ أَنَا أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ، رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبَّا، وَّ بِمُحَمَّدٍ رَسُوْلًا وَّ بِالْاِسْلَامِ دِیْنًا غَفَرَاللّٰہُ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذُنُوْبِہِ۔))[1] ’’موذن کے اذان کو سن کر جس نے کہا: اور میں بھی گواہی دیتاہوں کہ معبود حقیقی صرف اللہ وحدہٗ لا شریک ہے اور اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسی کے بندے اور رسول ہیں، میں اللہ سے بحیثیت رب، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بحیثیت رسول اور اسلام سے بحیثیت دین راضی ہوگیا تو اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ گناہوں کو معاف کردیتا ہے۔‘‘ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: انھی دونوں حدیثوں پر دین کے مقامات کا دار و مدار ہے، اور انھی پر انتہا ہے، یہ دونوں حدیثیں اللہ کی ربوبیت و الوہیت،ر سول کی اطاعت، اور دین سے راضی ہونے کو شامل ہیں۔ جس کو بھی یہ چار چیزیں میسرہوجائیں وہ بلاشبہ صدیق ہے، زبان سے ان چیزوں کا دعویٰ سب سے آسان ہے، لیکن حقیقت میں اور امتحان کے وقت بہت مشکل ہے، بالخصوص جب مزاج اور طبیعت کے خلاف کوئی معاملہ ہو تو اس وقت معلوم ہوتا ہے کہ رضا کا دعویٰ زبانی تھا نہ کہ حقیقی۔ اس کی الوہیت پر رضا مندی کا تقاضا ہے کہ صرف اس کی محبت، خوف و رجاء، اسی کی جانب رجوع ویکسوئی، اسی کی جانب چاہت و محبت کی کشش پر راضی رہا جائے، یہ چیزیں اس کی عبادت اور اخلاص کی متقاضی ہیں۔ اس کی ربوبیت پر رضا مندی کا تقاضا یہ ہے کہ ا س کی تدبیر کائنات پر راضی رہا جائے، صرف اسی پر توکل کیا جائے، اسی سے مدد طلب کی جائے، اسی پر بھروسا و اعتماد کیا جائے، اس کے ہر ایک کام پر راضی رہا جائے، پہلی رضا مندی اس کے ہر حکم پر اور دوسری اس کی تقدیر پر راضی ہونے کی متقاضی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر رضا مندی کا تقاضا ہے کہ آپ کی مکمل اتباع کی جائے، آپ کے ہر حکم پر سرتسلیم خم کیا جائے، دنیائے انسانیت میں آپ کو ممتاز مقام پر فائز سمجھا جائے، آپ کی خصوصیت اور مقام و مرتبہ میں کسی کو شریک نہ سمجھا جائے، آپ کی احادیث ہی سے رہنمائی حاصل کی جائے، آپ ہی کو حکم تسلیم کیا جائے، کسی طرح کے ظاہری وباطنی حکم میں، ایمان کے حقائق و مقامات میں، الٰہی اسماء و صفات اور افعال میں صرف آپ کا فیصلہ تسلیم کیا جائے، آپ کا فیصلہ نہ ملنے کی صورت میں کسی دوسرے کو فیصل بنانے کا معاملہ اس مجبور شخص کے معاملے کی طرح ہونا چاہیے جو بحالت اضطرار مردار کھا کر اپنی جان بچاتا ہے، سمجھنے کے لیے اس کی بہترین مثال اس مٹی کی ہے جس سے تیمم اس وقت کیا جاتا ہے جب پانی کا استعمال ممکن نہ ہو۔
Flag Counter