Maktaba Wahhabi

327 - 548
ابن عطاء کا قول ہے: رضا اللہ کی مقرر کردہ تقدیر پر راضی برضا رہنے کا نام ہے۔[1] بعض اللہ والوں کا قول ہے: جو اللہ پر توکل کرتا ہے اور اس کی قضا و قدر پر راضی رہتا ہے، وہ ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے، اپنے آپ کو کسب خیر کے لیے فارغ کرلیتا ہے اور ان اعلیٰ اخلاق کو حاصل کرلیتاہے جو بندے کے معاملے کو درست کردیتے ہیں۔ مقام رضا اللہ اور لوگوں کے ساتھ حسنِ خلق کا دروازہ کھول دیتا ہے، اور صاحبِ رضا کو صائم و قائم کے درجے تک پہنچا دیتا ہے، بدخلقی نیکیوں کو ایسے ہی کھاجاتی ہے جیسے آگ ایندھن کو، رضا تمام امور سے متعلق قضا و قدر پر دل کی خوشی، اور ہر حال میں قلبی اطمینان و سکون کا باعث ہوتی ہے، اسی لیے بعض اللہ والوں نے رضا کا دوسرا نام اللہ کے ساتھ حسنِ خلق کو قرار دیا ہے، بلاشبہ وہ اللہ کی بادشاہت پر اعتراض اور حسن خلق کو برباد کردینے والی فضول گفتگو کو ترک کرنے کا باعث ہوتا ہے۔[2] شاعر کہتا ہے: العبد ذو ضجر و الرب ذو قدر و الدھر ذو دول و الرزق مقسوم ’’بندہ کبیدہ خاطر ہونے والا اور رب صاحب قضا و قدر ہے۔ زمانے میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں اور روزی بٹتی رہتی ہے۔‘‘ و الخیر أجمع فی ما اختار خالقنا و فی اختیارہ سواہ اللوم و الشوم ’’خالق ہی کی پسند میں سراسر بھلائی ہے اسے چھوڑ کر بندہ کچھ پسند کرتا ہے تو اس میں خرابی ہی خرابی ہے۔‘‘ شاعر کہتا ہے: إذا ارتحل الکرام إلیک یوما لیلتمسوک حالا بعد حال ’’جب سخی حضرات تیری جانب کوچ کرتے ہیں تاکہ وہ بار بار تجھ سے طلب کریں۔‘‘ فإن رحالنا حطت لترضی بحلمک عن حلول وارتحال
Flag Counter