Maktaba Wahhabi

329 - 548
آپ کے اس قول میں لوگوں کے لیے خصائل حمیدہ اور اخلاق حسنہ کی جانب رہنمائی ہے، یہ تربیت کا اعلیٰ ترین منہج ہے، جس کے مطابق ہمیں اپنی اور اپنے بچوں کی تربیت کرنی چاہیے، اس قول سے ہمیں درج ذیل چیزوں کا سبق ملتا ہے: ٭ حسن رضی اللہ عنہ کا قول: ’’میری نگاہ میں اس کی عظمت کا سب سے بڑا راز یہ ہے کہ دنیا اس کی نگاہ میں حقیر تھی۔‘‘[1] دنیا اس کی نگاہ میں حقیرہوتی ہے جو حقائق سے آگاہ ہو، قضا و قدر، جنت و جہنم، دنیا و زندگی اور اللہ تعالیٰ سے متعلق صحیح تصور اس کے ذہن نشین ہو، اللہ کے حضور حاضر ہونے کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے دنیا سے بے رغبت ہو کر آخرت کے لیے عمل کرے، اسے یقین ہو کہ دنیا امتحان وآزمائش کی جگہ اور آخرت کی کھیتی ہے، اس بات سے بچتا ہو کہ دنیا اپنی تمام تر چمک دمک اور رعنائیوں کے ساتھ اس پر غالب آجائے، ظاہراً و باطناً اپنے رب کے سامنے سر تسلیم خم کرچکا ہو، جاں گزیں ہوجانے والی ان حقیقتوں کا ادراک کرچکا ہو جو دنیا سے بے رغبت ہونے میں اس کی معاون و مددگار ہوں، انھیں میں سے درج ذیل حقیقتیں ہیں: ٭ اس بات کا کامل یقین کہ ہم اس دنیا میں اجنبیوں یا مسافروں کے مانند ہیں، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے: ((کُنْ فِی الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ۔))[2] ’’تم دنیا میں اجنبی یا مسافر کے مانند رہو۔‘‘ ٭ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس دنیا کی کوئی قدر و قیمت نہیں، اگر کچھ قدر و قیمت ہے تو دنیا کے اسی حصے کی ہے جو اللہ کی اطاعت کے لیے ہو، اس لیے کہ فرمان نبوی ہے: ((لَوْ کَانَتِ الدُّنْیَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللّٰہِ جَنَاحَ بَعُوْضَۃٍ مَا سَقَی کَافِرًا مِنْہَا شَرْبَۃَ مَائٍ۔)) [3] ’’اگر دنیا کی وقعت اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے پَر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو اس میں سے ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا۔‘‘ نیز فرمان نبوی ہے:
Flag Counter