Maktaba Wahhabi

340 - 548
مسنون ہے، فرمان نبوی ہے: ((لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَ یُوَقِّرْ کَبِیْرَنَا وَ یَأْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُعَرِّفْ لِعَالِمِنَا حَقَّہَ۔)) [1] ’’وہ ہم میں سے نہیں جو چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا، بڑوں کی عزت نہیں کرتا، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام نہیں دیتا، اور عالم کا حق نہیں پہچانتا۔‘‘ سلف صالحین علما کا بڑا ادب و احترام کرتے تھے، مجلس میں عالم کے ساتھ کس طرح پیش آیا جائے، کس طرح گفتگو کی جائے، اس سلسلے میں اہل علم نے کافی گفتگو کی ہے، جو بالتفصیل ’’آداب العالم و المتعلم‘‘ پر مشتمل کتابوں میں موجود ہے۔ اس سلسلے میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے اقوال نہایت جامع ہیں ان کا قول ہے: ’’عالم کا حق یہ ہے کہ اس سے زیادہ سوال نہ کرو، نہ لاجواب کرنے کی کوشش کرو، جواب نہ دینا چاہے تو اس پر اصرار نہ کرو، اٹھنا چاہے تو اس کا کپڑا نہ کھینچو، اس کا کوئی راز فاش نہ کرو، اس کے پاس کسی کی غیبت نہ کرو، اس سے کوئی چوک ہوجائے تواس کاعذر قبول کرو، جب تک وہ اللہ کے اوامر کو بجا لاتا ہو اللہ کے واسطے اس کی توقیر و تعظیم کرو، اس کے سامنے برابری میں نہ بیٹھو، ضرورت پڑنے پر لوگ اس کی خدمت کریں۔‘‘[2] انھی کا قول ہے: ’’عالم کا حق ہے کہ جب تم اس کے پاس آؤ تو اسے خصوصی اور لوگوں کو عمومی طور پر سلام کرو، اس کے آگے کی طرف بیٹھو،ہاتھوں اورآنکھوں کے اشاروں سے بچو، یہ نہ کہو کہ فلاں کا قول، آپ کے قول کے خلاف ہے، اس کا کپڑا نہ کھینچو، سوال کرنے میں اصرار نہ کرو، بلاشبہ وہ رطب کھجور کے درخت کی طرح ہے جس سے کچھ نہ کچھ تمھیں ملتا رہتا ہے۔‘‘[3] عبدالرحمن بن مہدی رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’جب کوئی عالم اپنے سے بڑے عالم کو پاتا ہے تو وہ اس کے لیے غنیمت کا دن ہوتا ہے، اس سے پوچھتا ہے، علم حاصل کرتاہے، جب اپنے سے چھوٹے عالم کو پاتا ہے تو اس کو علم سکھاتا ہے، اس کے
Flag Counter