Maktaba Wahhabi

345 - 548
’’اس کو برا سمجھنا درست ہے جس کی برائی معروف ہو اور اس پر دلیلیں واضح ہوں، صرف گمان کی بنیاد پر کسی کو برا سمجھنا درست نہیں، گمان اکثر وبیشتر جھوٹا ہوتا ہے۔‘‘ حکمت پر مبنی حسن رضی اللہ عنہ کے اس قول کا مفہوم یہ ہے کہ ہوشیار اور بابصیرت مومن جب کسی شخص کے بعض برے احوال، تصرفات، اقوال اور افعال کو جان لے تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اسے برا سمجھے، انسان کے چہرے کے آثار، بعض اقوال و افعال سے اس کے دل کی بعض باتیں نمایاں ہوجاتی ہیں، لیکن اسے برا سمجھنے کی بنا پر اس شخص کو کوئی سزا نہیں دی جاسکتی، بلکہ حسن رضی اللہ عنہ کے اس قول کا مقصد یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے محتاط رہنے اور بچنے کی ضرورت ہے تاکہ ان جیسے لوگوں کے ساتھ حسن ظن کے باعث کوئی مسلمان مصائب و مشکلات سے دوچار نہ ہوجائے، جس کا لوگوں سے سابقہ پڑتا رہتا ہے۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ جس سے متعلق سوء ظن کے دلائل و شواہد موجود ہوں اس پر اعتماد کرنا کتنا خطرناک ہوتا ہے، لیکن بلادلائل و شواہد کسی مسلمان کا کسی مسلمان سے سوء ظن رکھنا بالکل مناسب نہیں۔ فرمان الٰہی ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ) (الحجرات:۱۲) ’’اے ایمان والو! بہت بدگمانیوں سے بچو، یقین مانو کہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے اس قول إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ کا مفہوم یہ بتاتا ہے کہ اہل خیر کے ساتھ بدگمانی گناہ ہے، رہے برے اور فاسق لوگ تو ان کے ظاہری حالات کے مطابق ہم ان کے ساتھ بدگمانی رکھ سکتے ہیں۔[1] فرمان نبوی ہے: ((إِیَّاکُمْ وَ الظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِیْثِ۔))[2] ’’تم بدگمانی سے بچو اس لیے کہ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے۔‘‘ ابن حجر رحمہ اللہ نے کسی مسلمان سے بدگمانی کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے، چنانچہ ان کا قول ہے: ’’ایسا اس لیے کہ جو شخص محض بدگمانی کے باعث کسی کو برا قرار دیتا ہے شیطان اس کو اسے حقیر سمجھنے، اس کے حقوق کی رعایت نہ کرنے، اس کے احترام میں کوتاہی کرنے اور اس کی عزت و ناموس سے متعلق زبان درازی پر آمادہ کرتا ہے، یہ تمام باتیں باعث ہلاکت ہیں، جسے تم پاؤ کہ وہ لوگوں سے بدگمانی اس لیے کرتاہے کہ ان کے عیوب کو ظاہر کرے تو سمجھ لو کہ وہ بدباطن اور بری نیت والا ہے،
Flag Counter