Maktaba Wahhabi

347 - 548
’’اور کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھیں۔‘‘ اور جمہور فقہاء و محقق اصولیین کے نزدیک راجح بات یہی ہے کہ امر وجوب کے لیے ہوتا ہے۔‘‘[1] ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’حاکمِ وقت مشاورت سے مستغنی نہیں ہوسکتا، اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو اس کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے: (فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ) (آل عمران: ۱۵۹) ’’ان سے درگزر کریں اور ان کے لیے استغفار کریں اور کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھیں، پھر جب آپ کا پختہ ارادہ ہوجائے تو اللہ پر بھروسا کریں بے شک اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘ بلاشبہ شورائیت اسلامی نظام کے ان بنیادی امور میں سے ہے جو اسلامی معاشرے کے قیام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، بہت سارے عظیم مقاصد اور اعلیٰ مصلحتوں کے پیش نظر شورائی نظام مشروع قرار دیا گیا، اس میں معاشرے، امت اور حکومت کی بھلائی اور برکت پر مبنی بہت سارے عظیم فوائد اورمصلحتیں پوشیدہ ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں: ٭ شوریٰ ایک طرح کھلم کھلا بحث و مناقشہ ہے، یہ رائے عامہ کو ہموار اور واضح کرنے، حاکم و محکوم، رئیس و مرؤوس کے مابین محبت و اعتماد کے اسباب کو مضبوط کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، ڈکٹیٹر شپ میں پروان چڑھنے والے شکوک کو ختم کرنے، اندیشوں کو دور کرنے، شبہات کے ازالے اور افواہوں کو روکنے میں حکومت کے لیے ایک بہترین طریقہ ہے۔ ٭ اسلامی مبادیات کا تقاضا ہے کہ ہر فرد یہ محسوس کرے کہ معاشرتی اور اجتماعی زندگی میں اس کا ایک کردار ہے، شورائیت ہر فرد کو موقع دیتی ہے کہ وہ معاشرے کی بھلائی کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش، فکر، رائے اور صلاحیت کو بروئے کار لائے، نیز عام معاملات میں ہر شخص کو اظہارِ رائے کاموقع فراہم کرتی ہے۔ ٭ شورائیت افرادِ امت کو فکری جمود اور گرم جذبات سے روکتی ہے، وہ ہر فرد کو اپنی ذاتی، فکری اور انسانی اہمیت کا احساس دلاتی ہے، افرادِ امت کو محنت، ایجاد اور رضامندی پر آمادہ کرتی ہے، امت کو مختلف طاقت و قوت عطا کرتی اور اس کی خوابیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرتی ہے۔ ٭ شورائیت سخت قسم کے دباؤ اور پوشیدہ کینوں کا کامیاب علاج ہے، مخفی غم و غصہ کو ختم کرتی ہے، رعایا کو فائدہ
Flag Counter