ہوں، انھوں نے کہا: پھر کس لیے؟ کہا: میں چاہتا ہوں کہ تمھارا معاملہ ٹھیک کروں اور تمھاری پراگندہ حالی دور کروں، انھوں نے کہا: ایسا سلوک یا تو مانگنے پر ہوتا ہے یا کسی پرانے کام کے بدلہ میں، جواب دیا: دونوں میں سے کوئی سبب نہیں، بلکہ رات میں تمھارے ساتھ رہا، دل میں خیال آیا کہ میں اپنا کچھ مال اللہ کے محبوب کاموں میں خرچ کروں، ان لوگوں نے کہا: ہمیں دینا اللہ کے محبوب کاموں میں سے نہیں ہے اگر ہم خوش حال ہوں اور ضرورت بھر روزی مل جاتی ہو، اگر آپ کا یہی ارادہ ہے تو جو اس کے مستحق ہوں انھیں دیں، اور اگر بغیر مانگے آپ عطیہ اور ہدیہ دینا چاہتے ہیں تو آپ کے اس احسان کا شکریہ، اور آپ کی بھلائی قابل قبول ہے، چنانچہ عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے انھیں دس ہزار درہم اور بیس اونٹ دینے کا حکم دیا، اور ان کا بار دوسرے خچروں اور جانوروں کی جانب منتقل کردیا گیا، نیز فرمایا: میرے خیال میں عرب و عجم میں اس ضعیفہ اور ان نوجوانوں کی طرح کوئی نہیں، ضعیفہ نے نوجوانوں سے کہا: تم میں سے ہر ایک اس معزز شخص کے بارے میں شعر کہے، چنانچہ بڑے لڑکے نے کہا: شہدت علیک بطیب الکلام و طیب الفعال و طیب الخبر ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کی گفتگو اچھی، آپ کے کارنامے اچھے اور آپ کے بارے میں خبر اچھی ہے۔‘‘ اور منجھلے لڑکے نے کہا: تبرعت بالجود قبل السؤال فعال کریم عظیم الخطر ’’مانگنے سے پہلے آپ نے فیاضی کی ہے یہ ایک اہم اور شریف شخص کا کام ہوتا ہے۔‘‘ اور چھوٹے لڑکے نے کہا: و حق لمن کان ذا فعلہ بان یسترق رقاب البشر ’’جس کا یہ کارنامہ ہو اسے حق ہے کہ لوگوں کو اپنا غلام بنا لے۔‘‘ اور بوڑھی عورت نے کہا: فعمرک اللّٰہ من ماجد و وقیت سوء الردی و الحدر[1] |
Book Name | سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | ڈاکٹر لیس محمد مکی |
Volume | |
Number of Pages | 548 |
Introduction |