Maktaba Wahhabi

442 - 548
’’اگر آپ گوہ کے بل میں بھی ہوں گے تو وہ لوگ آپ کو ڈھونڈ نکالیں گے اور آپ کے لیے خودبخود بیعت کریں گے۔‘‘ جب علی رضی اللہ عنہ نے اہل شام سے جنگ اور اس کی تیاری کا عزم کیا اور اپنے فرماں برداروں کے تعاون سے نافرمانوں سے جنگ کے ارادے سے مدینہ سے نکلے تو آپ کے پاس حسن رضی اللہ عنہ آئے اور کہا: ((یَا أَبَتِ دَعْ ہَذَا فَاِنَّ فِیْہِ سَفْکَ دِمَائِ الْمُسْلِمِیْنَ وَ وُقُوْعَ الْاِخْتِلَافِ بَیْنِہِمْ)) [1] ’’اے والد محترم! اس عزم کو ترک کردیں، اس سے مسلمانوں کا خون بہے گا اور ان کے مابین اختلاف و انتشار بڑھے گا۔‘‘ لیکن علی رضی اللہ عنہ نے حسن رضی اللہ عنہ کا مشورہ نہیں مانا، آپ کی رائے تھی کہ لوگوں کو فتنے میں نہ چھوڑا جائے، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا جائے، معاملے کو ٹھیک کیا جائے، حق کو اہل حق تک پہنچایا جائے، ہر ایک کی اپنی رائے ہوتی ہے۔[2] یہاں علی رضی اللہ عنہ کی رائے درست تھی۔ حسن رضی اللہ عنہ کی اسلامی تربیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معجزانہ تربیت کا اثر یہ ظاہر ہوا کہ وہ ایک جلیل القدر سردار ہوئے، سرداری زبردستی، خونریزی، مال کے ضیاع اور محترم چیزوں کے احترام کی پامالی سے نہیں ملتی، بلکہ ان کی حفاظت اور آپس کی عداوت و دشمنی کو ختم کرکے حاصل ہوتی ہے۔چنانچہ مصالحت اور مسلمانوں کی خونریزی کو روک کر آپ نے سرداری کا اعلیٰ مقام حاصل کرلیا جسے کوئی بھی بزور بازو حاصل نہیں کرسکتا۔ حسن رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے مصالحت کرلی، جب کہ آپ کے ساتھ ہزاروں لوگ تھے، ان میں کچھ تو لالچی اور غیرمخلص تھے، لیکن اکثریت وفادار اور مخلص تھی، لیکن آپ نے چاہا کہ آپ کی وجہ سے اس سلسلے میں خون کا ایک قطرہ بھی نہ بہے اور نہ ہی کوئی مسلمان زخمی ہو، اگر قوموں کی سرداری ان کی حفاظت، بچاؤ اور ترقی کے لیے نہ ہو تو وہ سراسر اندھی سرکشی، احمقانہ ناعاقبت اندیشی اور خطرات مول لینا ہے جس کا نتیجہ تباہی و بربادی، ذلت و رسوائی کے علاوہ کچھ نہیں ہے، ایسا کرنے والے اللہ کے غضب اور تاریخ کی لعنت کا شکار ہوتے ہیں، دنیاداری، سرداری اورحکومت کی لالچ کے نتیجے ہی میں ہمیشہ انسانوں کے خون بہتے رہے ہیں۔[3] حسن رضی اللہ عنہ کو دنیا، حکومت اور سرداری کی کوئی رغبت نہیں تھی، اگر آپ کو رغبت ہوتی تو آپ سالہا سال کی خونریز جنگ چھیڑ سکتے تھے، لیکن آپ کی نگاہ آخرت پر تھی، امت محمدیہ کو خوں ریزی سے بچانا چاہتے تھے، حسن
Flag Counter