Maktaba Wahhabi

448 - 548
انجام سے آگاہ ہوچکے ہیں، امت اپنے خون میں لت پت ہوچکی ہے۔دونوں نے کہا: وہ (معاویہ رضی اللہ عنہ ) آپ کے کچھ مطالبات تسلیم کرلینا اور اپنے کچھ مطالبات منوانا چاہتے ہیں، آپ نے کہا: میرے لیے اس کی ضمانت کون لے گا؟ دونوں نے کہا: [1] ہم، چناں چہ جس چیز کی ان دونوں سے ضمانت طلب کی وہ اس کی ضمانت کے لیے تیار ہوگئے، اس طرح آپ نے ان (معاویہ رضی اللہ عنہ ) کے ساتھ صلح کرلی۔ حسن بصری کہتے ہیں کہ میں نے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر دیکھا تھا، آپ کے بغل میں حسن بن علی رضی اللہ عنہما تھے، آپ ایک بار لوگوں کی جانب متوجہ ہوتے تھے اور دوسری بار ان کی جانب، اور کہہ رہے تھے: ’’میرا یہ لاڈلا سردارہے اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں کے مابین صلح کرائے۔‘‘[2] صلح کی اس مذکورہ حدیث سے مستنبط درج ذیل فوائد کو حافظ ابن حجر ؒنے ذکر کیا ہے: ۱۔ اس واقعے میں نبوت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ ۲۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے فضائل میں سے ایک فضیلت ہے، آپ نے دنیاوی حکومت کو چھوڑ دیا، قلتِ تعداد، کمزوری یا کسی اور سبب سے نہیں بلکہ مسلمانوں کو خونریزی سے بچا کر اللہ کے پاس موجود نعمتوں کے لالچ کے سبب، آپ نے دین اور امت مسلمہ دونوں کی مصلحت کی رعایت کی۔ ۳۔ خوارج جو علی رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب نیز معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب کو کافر قرار دیتے تھے اس روایت میں ان کی تردید ہے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں جماعتوں کے بارے میں مسلمان ہونے کی شہادت دی ہے۔ ۴۔ اس روایت میں لوگوں کے مابین صلح کی فضیلت ہے خصوصاً جب اس کے نتیجے میں مسلمان خونریزی سے بچ جائیں۔ ۵۔ اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ رعایا پر مہربان اور مسلمانوں پر شفیق تھے، آپ میں حکمرانی کی اعلیٰ صلاحیت تھی اور نتائج و عواقب پر آپ کی گہری نظر تھی۔ ۶۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ افضل کے ہوتے ہوئے مفضول خلیفہ بن سکتا ہے، اس لیے کہ حسن و معاویہ رضی اللہ عنہما دونوں خلیفہ ہوئے، جب کہ سعد بن ابی وقاص اور سعید بن زید رضی اللہ عنہما باحیات تھے جو بدری صحابہ ہیں۔
Flag Counter