Maktaba Wahhabi

466 - 548
حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو مسلمانوں کی خونریزی کی خطرناکی کا اچھی طرح احساس تھا، اس لیے کہ وہ سب سے خطرناک چیز ہے، جو انسانیت کے وجود کو ہلا کر رکھ دیتی ہے، بنا بریں اس کی حرمت، اس پر وعید اور اس کی سزا کتاب و سنت کے بہت سارے نصوص میں وارد ہے، قیامت کے دن سب سے پہلے خون کے فیصلے کیے جائیں گے، اس سے قتل نفس کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے، امام بخاری رحمہ اللہ عنہ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل کی ہے، کہتے ہیں: ((قَالَ النَّبِیُّ صلي الله عليه وسلم أَوَّلُ مَا یُقْضَی بَیْنَ النَّاسِ فِی الدِّمَائِ۔))[1] ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کے مابین سب سے پہلے خونوں سے متعلق فیصلے کیے جائیں گے۔‘‘ قیامت کے دن خون کا معاملہ بہت عظیم ہوگا، دنیا میں خون کی حفاظت کے لیے کام کرنا شریعت کا ایک اہم مقصد ہے۔اسی لیے حسن رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے خون کی حفاظت کے لیے صلح کے حریص تھے۔ اسلامی شریعت (جس کی پوری سمجھ حسن رضی اللہ عنہ کو حاصل تھی) نے نفس انسانی کو بڑی اہمیت دی ہے، چنانچہ ایسے احکام کو مشروع قرار دیا ہے، جن سے اس کی مصلحتیں حاصل ہوتی ہے اور نقصانات دور ہوتے ہیں، شریعت نے ایسا اس کی حفاظت، بچاؤ اور اس پر ظلم سے روکنے کے لیے کیا ہے، اس لیے کہ انسانی جانوں کے ضائع اور ہلاک ہونے سے اللہ کی عبادت کے مکلف لوگ ہلاک ہوں گے جس کا آخری نتیجہ دین کا ضیاع ہوگا اور جن نفوس کی حفاظت کا شریعت نے اہتمام کیا ہے وہ وہی نفوس ہیں جو اسلام لاکر جزیہ و امان سے محفوظ ہیں۔[2] بنا بریں صلح پر بعض اعتراض کرنے والوں نے جب حسن رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے ’’یا عار المؤمنین‘‘ (اے مومنوں کے لیے باعث شرم) کہا تو آپ نے اس کے جواب میں کہا:’’للعار خیر من النار۔‘‘ [3] (باعث شرم ہونا جہنم کی آگ سے بہتر ہے)۔ ابن سعد کی روایت میں ہے: ((…إِنِّی اخْتَرْتُ الْعَارَ عَلَی النَّارِ۔))[4] ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما اپنے متبعین سے مناقشہ کرتے، صلح کے اسباب کو بیان کرتے
Flag Counter