Maktaba Wahhabi

490 - 548
عہدِ خلفائے راشدین میں حکام سے متعلق امت کے حقِ مراقبہ کو تسلیم کیا جاتا ہے، اس کا کسی نے انکار نہیں کیا ہے، جس سے اس پر اجماع کا پتہ چلتا ہے۔[1]عہد خلافت ِراشدہ میں صحابہ (چاہے حاکم ہوں یا محکوم) کے اجماع کے ایک ہی معنی تھے: کتاب اللہ کی صحیح سمجھ، سنت پر عمل کرنے کا صحیح طریقہ۔ [2] ھ: جن امور میں کتاب و سنت کی کوئی نص نہیں ہوتی ان میں باہمی مشورے اور مصالح مرسلہ کے تحت مصلحت عامہ کے حصول کے لیے جن تنظیمی کارروائیوں کو خلیفہ مناسب سمجھتا انجام دے سکتا تھا۔ جیسا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جمع قرآن میں، عمر رضی اللہ عنہ نے شہر کے اطراف کی زمینوں اور دیگر تنظیمی امور (جیسے فوج اور خراج کے دفاتر کے قیام) کے سلسلے میں، عثمان رضی اللہ عنہ نے مصحف کے نسخوں کو تیار کرانے اور مختلف علاقوں میں بھیجنے کے بارے میں کیا۔ و: امت کے اکابر اور علما کا اختلاف فطری امر ہے، لیکن امت کی مصلحت، باہمی خیرخواہی اور بھائی چارگی کے سائے میں، عقلوں کے اختلاف سے آراء و نظریات کا اختلاف وجود میں آتا ہے، جیسا کہ سقیفۂ بنوساعدہ، حروبِ ردہ، اور جمع قرآن میں ہوا، لیکن اس اختلاف کو امت کی گروہ بندی اور باہمی جھگڑے تک نہیں پہنچنا چاہیے، اس لیے کہ اس سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے، اور اس سلسلے میں اصل فیصل اللہ کی کتا ب اور اس کے رسول کی سنت ہے۔[3] ز: خلافت راشدہ کے نقوش و آثار کا اختصار یوں کیا جاسکتا ہے کہ سیاسی نظام میں سب سے اعلیٰ دستوری حیثیت کتاب و سنت کو حاصل تھی، آسمانی شریعت کے احکام کی مکمل تنفیذ ہوتی تھی، حاکم منتخب ہوتا اور موظف ہوتاتھا، بیت المال حاکم کے بجائے پوری امت کا ہوتا تھا، مکمل شورائی نظام تھا، اس کے کچھ منتظمین ہوتے جو معاشرہ کے افراد کو راضی کرنے کا کام انجام دیتے تھے، پیش آمدہ مسائل میں امت کا عمل دخل ہوتا تھا۔ معاشرتی امور میں عہدِ خلافت راشدہ کو اجمالاً یہ امتیاز حاصل تھا کہ لوگوں کی ایمانی تربیت کی گئی تھی، لوگوں کے دلوں میں محرمات شرعیہ سے روکنے کی پوری صلاحیت تھی، نسلی تعصب کی بالکل اجازت نہیں تھی، لوگوں کو مکمل طور پر مسلمان بنایا گیا تھا، عموماً انسانی حقوق اور داخلی اتحاد و اتفاق پر زور دیا جاتا تھا، حکومت کی سرحدوں کی حفاظت کی جاتی تھی، تمدنی ذمہ داری سب کی تھی چاہے وہ حاکم ہوں یا محکوم۔
Flag Counter