Maktaba Wahhabi

493 - 548
لیکن زہری سے مروی روایت میں ہے کہ حسن رضی اللہ عنہ کے قائد عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو جب اس بات کا پتہ چل گیا جو حسن رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ سے چاہتے تھے، تو معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس پیغام بھیج کر امان طلب کرلی اور اپنے لیے ان مالوں کی شرط لگالی جنھیں وہ پاچکے تھے، پھر رات میں نکل کر ان سے جاملے، اور قیس بن سعد رضی اللہ عنہما (جن کو انھوں نے اپنے بعد فوج کا ذمہ دار بنایا تھا) اور فوج نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے جنگ کرنے کا عہد کیا تاکہ و ہ شیعان علی رضی اللہ عنہ اور ان کے متبعین کے اموال اور خونوں کی حفاظت کی شرط کو قبول کرلیں۔[1] مستشرق ولہاؤزن نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ یہ باطل تہمت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما پر لگا دے اور یہ ذکر کیا ہے کہ فوج کے قائد عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما تھے، اس سلسلے میں ولہاؤزن کی دلیل ہے کہ تاریخ طبری کے بعض مخطوط نسخوں میں وارد نام عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہے، اور عبداللہ و عبید اللہ میں مخطوطات کے اختلاف کا تعلق ناسخ سے نہیں ہے، بلکہ ان راویوں سے ہے جن کا ارادہ تھا کہ یہ تہمت و عار عباسیوں کے جد اعلیٰ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما پر نہ لگے، اور عبید اللہ رضی اللہ عنہ کے بھائیوں نے ان کے عدمِ دفاع میں کوئی حرج محسوس نہیں کیا۔[2] حالاں کہ تاریخی حقیقت یہ ثابت کرتی ہے کہ فوج کے قائد خود حسن بن علی رضی اللہ عنہما تھے، اور ان کے مقدمۃ الجیش کے قائد قیس بن سعد رضی اللہ عنہما تھے، اس سلسلے میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما یا عبید اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا ذکر کہیں بھی نہیں ملتا[3] سوائے ضعیف روایتوں کے جو دلیل نہیں بن سکتیں۔ ابوحنیفہ دینوری نے ’’الأخبار الطوال‘‘[4]اور ابن حجر نے ’’المطالب العالیۃ‘‘[5]، اور ابن أعثم نے ’’الفتوح‘‘[6] میں ذکر کیا ہے کہ فوج کے قائد حسن بن علی اور قیس بن سعد رضی اللہ عنہم تھے۔ عبداللہ بن عباس اور عبید اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کا کوئی ذکر نہیں ہے۔[7] ولہاؤزن کی اس بات کی تائید کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فوج کے قائد تھے نہ کہ عبید اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور اس پر اس کی مذکورہ دلیل کی مخالفت وہ روایت کرتی ہے جسے زیاد بن عبداللہ بکائی نے عوانہ بن حکم سے نقل کیا ہے، جن پر عباسیوں کی طرفداری کی تہمت نہیں تھی، وہ کہتے ہیں کہ عبید اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے یمن کے گورنر تھے، جب انھیں اپنی جانب بسر بن ابی ارطاۃ رضی اللہ عنہ کی لشکر کشی کا علم ہوا تو انھوں نے یمن میں اپنا نائب عبید اللہ بن عبدالمدائن حارثی کو بنا دیا اور خود کوفہ میں علی رضی اللہ عنہ کے پاس چلے گئے، ایسا ۴۰ھ میں ہوا، اور علی رضی اللہ عنہ نے بسر رضی اللہ عنہ کی فوج کے تعاقب کے لیے ایک فوج یمن کی جانب بھیج دی، اسی سال علی رضی اللہ عنہ شہید کیے گئے اور ایسا
Flag Counter