Maktaba Wahhabi

503 - 548
امت گواہی دیتی ہے۔ ۵۔ مستقل خلیفہ بن جانے کے بعد معاویہ اور علی رضی اللہ عنہما کی اولاد کے مابین الفت اور ایک دوسرے سے قربت تھی، جس کا تذکرہ تاریخ و سیر کی کتابوں میں مشہور و معروف ہے۔[1] اس کی بعض مثالیں درج ذیل ہیں: حسن و حسین رضی اللہ عنہما معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو انھوں نے ان دونوں کو دولاکھ دیے اور کہا: مجھ سے پہلے کسی نے اتنا نہیں دیا ہے۔ جواب میں حسین رضی اللہ عنہ نے کہا: تو آپ نے ہم سے افضل کسی شخص کو نہیں دیا ہوگا۔[2] ایک مرتبہ حسن رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، انھوں نے کہا: اے نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم آپ کا استقبال کرتے ہیں اور انھیں تین لاکھ دینے کا حکم دیا۔[3] اس طرح کی باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے پر لوگوں کو ابھارنے کی جو تہمت معاویہ رضی اللہ عنہ پر لگائی جاتی ہے وہ قطعی جھوٹ ہے، اس لیے کہ یہ کیسے ہوسکتاہے جب کہ ان کے مابین اور ان کی اولاد کے مابین اس طرح کی الفت و محبت اور اکرام و احترام موجود ہو، اس سے اس مسئلے کی حقیقت اور سچائی واضح ہوجاتی ہے۔[4] اسی طرح اس وقت کے لوگ شرعی احکام کے پابند تھے، ان پر عمل کرنے کے حریص تھے، اس لیے وہ لعن طعن، فحش گوئی اور بدکلامی سے بہت دور رہتے تھے، چنانچہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے: ((لَیْسَ الْمُوْمِنُ بِالطَّعَّانِ وَ لَا بِاللَّعَّانِ وَ لَا بِالْفَاحِشِ وَ لَا الْبَذِیِٔ۔)) [5] ’’مومن نہ تو طعن و تشنیع کرنے والا ہوتا ہے، نہ ہی لعنت و ملامت کرنے والا، اور نہ فحش گو ہوتا ہے اور نہ بدکلام۔‘‘ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرک مردوں کو برا بھلا کہنے سے روکا ہے تو اللہ کے اولیائے صالحین کو کیسے برا بھلا کہا جاسکتا ہے؟ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعاً روایت ہے: ((لَا تَسُبُّوا الْأَمْوَاتَ فَإِنَّہُمْ قَدْ أَفْضُوْا إِلٰی مَا قَدَّمُوْا۔)) [6] ’’مردوں کو برا بھلا نہ کہو، وہ اپنے بھیجے ہوئے عمل تک پہنچ چکے ۔‘‘
Flag Counter