Maktaba Wahhabi

514 - 548
آپ کا قول ’’فتکثر‘‘ خلفائے راشدین کے علاوہ خلفاء کی دلیل ہے، اس لیے کہ خلفائے راشدین کثیر نہیں تھے، آپ کا قول ’’وفوا بیعۃ الأول فالأول‘‘ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ایک دوسرے سے اختلاف کریں گے حالاں کہ خلفائے راشدین نے ایک دوسرے سے اختلاف نہیں کیا تھا، آپ کا قول ’’فأعطوہم حقہم فإن اللّٰہ سائلہم عما استر عاہم‘‘ حکام کو مال اور غنیمت میں ان کا حق دینے سے متعلق اہل سنت کے مذہب کی دلیل ہے۔[1] معاویہ رضی اللہ عنہ اس امت کے سب سے بہتر بادشاہ ہیں، جو لوگ ان سے پہلے تھے وہ علی منہاج النبوۃ خلیفہ تھے، لیکن ان کی خلافت بادشاہت تھی، نیز ان کی بادشاہت بادشاہت اور رحمت تھی، آپ کی بادشاہت میں جو رحمت، حلم و بردباری، اور مسلمانوں کو نفع رسانی تھی وہ سب باتیں بتلاتی ہیں کہ وہ دوسرے بادشاہوں سے بہتر تھے۔[2] معاویہ رضی اللہ عنہ عالم، پرہیزگار، اور عادل تھے، لیکن وہ ان اوصاف میں خلفاء اربعہ سے کمتر تھے، جیسا کہ اولیاء بلکہ ملائکہ اورانبیاء کے مابین تفاوت پایا جاتا ہے، چنانچہ ان کی خلافت و حکومت اگرچہ اجماعِ صحابہ اور حسن رضی اللہ عنہ کے سونپ دینے کے باعث صحیح تھی، مگر ان سے پہلے خلفاء کی خلافت کے طرز پر نہیں تھی، انھوں نے بہت ساری ایسی مباح چیزوں میں وسعت دے دی جن سے خلفاء اربعہ بچ رہے تھے، نیز عبادات و معاملات میں خلفاء اربعہ کی فضیلت بالکل ظاہر و باہر ہے۔[3] ابن خلدون نے تبدیلیوں کو ذکر کرتے ہوئے اس بات کو ذکر کیا ہے کہ خلافت اگرچہ ملوکیت میں تبدیل ہوگئی تھی مگر خلافت کے مفاہیم باقی رہ گئے تھے، تبدیلی تصرفات کے بنیادی محرک میں ہوئی تھی، پہلے بنیادی محرک دین ہوا کرتا تھا، لیکن اس وقت عصبیت اور تلواریں بنیادی محرک بن گئی تھیں، مراد یہ کہ پہلے لوگوں کے تصرفات میں بنیادی محرک دین تھا، اور خلافت شورائی تھی، بعد میں حکومت کی بنیاد عصبیت اور قوت پر ہوگئی، لیکن خلافت کے اہداف و مقاصد باقی رہ گئے تھے، یعنی اس بادشاہت کے اغراض و اہداف یہ تھے کہ وہ دین کے مقاصد کو پورا کرے، اسلامی شریعت کے مطابق عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے، ان واجبات کو بروئے کار لائے جن کا اسلام حکم دیتا ہے، یعنی بادشاہت و حکومت اسلامی و شرعی ہی باقی رہی۔[4] خلافت کے ادوار کی تلخیص کرتے ہوئے کہتے ہیں:
Flag Counter