Maktaba Wahhabi

522 - 548
عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ ایک مجاہد، جلیل القدر صحابی تھے، اس زمانے میں آپ کو اچھا مقام حاصل تھا، بہت ساری فتوحات میں آپ شریک رہے، عہدِ عثمانی میں فتح کرنے والی فوجوں کے امیر رہے، سجستان کو بغیر جنگ کے فتح کیا، اس کے بعد ’’بُست‘’ اور اس سے متصل علاقوں کو فتح کیا، کابل اور زابلستان تک پہنچ کر ان دونوں کو فتح کیا، اور بہت سارا مالِ غنیمت ابن عامر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا۔[1] ٭ دوسرے عبداللہ بن عامر بن کریز بن ربیعہ بن عبدشمس بن عبدمناف بن قصی قرشی رضی اللہ عنہ تھے۔[2]عہد نبوی۴ھ میں آپ کی ولادت ہوئی۔[3] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ۷ھ میں عمرۃ القضاء ادا کرنے آئے اور مکہ میں داخل ہوئے توآپ کے پاس عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو لایا گیا۔ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: آپ نے زبان نکالی اور جمائی لی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے منہ میں اپنا تھوک ڈال دیا اور پوچھا: یہ سلمیہ کے لڑکے ہیں ؟ لوگوں نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: یہ ہمارے مشابہ ہے اور ان کے منہ میں آپ اپنا تھوک ڈالتے رہے اور ان کے لیے شیطان سے بچاؤ کی دعا کرتے رہے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تھوک کو نگلتے رہے، آپ نے فرمایا: بلاشبہ یہ سیراب کیے ہوئے ہیں، چنانچہ جو زمین بھی آپ کھودتے وہاں سے پانی نکلنے لگتا۔[4] عثمان رضی اللہ عنہ سے متعلق اپنی کتاب میں عہد ذوالنورین میں گورنروں کے ادارے پر گفتگو کے وقت میں نے آپ کی سوانح حیات لکھی ہے۔[5] ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے قول کے مطابق ان کی نیکیاں اور لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت معروف ہیں۔[6] ان کے بارے میں امام ذہبی فرماتے ہیں: آپ کاشمار عرب کے بڑے امراء، بہادروں اور شہسواروں میں ہوتا تھا، ان میں نرمی و بردباری تھی۔[7] جنگ جمل و صفین سے آپ بالکل الگ تھلگ رہے۔ مذکورہ دونوں شخصیتوں کا معاویہ رضی اللہ عنہ کی جانب سے بھیجا جانا اس با ت کی دلیل تھی کہ وہ حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ کسی قیمت پر بھی صلح کی کامیابی کے حریص تھے، اور معاملے کی باگ ڈور حسن رضی اللہ عنہ اور آپ کے مؤیدین کے ہاتھوں رہی۔ صحیح بخاری کی سابقہ روایت نیز دیگر روایات کے مطابق آپ کا فوجی محاذ نہایت مضبوط تھا، رہا معاملہ حسن رضی اللہ عنہ پر حملہ کرنے اور قتل کرنے کی کوشش کا، تو اس کا تعلق جنگی حالات اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ حقیقت میں
Flag Counter