Maktaba Wahhabi

524 - 548
جان پاتے ہیں، اپنے آپ کا جائزہ لو اور خالص نیت سے کام کرو، ایسا معاملہ لوگوں سے قریب ہوچکا ہے، جس کے لیے آدمی مرجانا چاہتا ہے۔[1] حسن رضی اللہ عنہ ہمیں سکھلا رہے ہیں کہ ہم کس طرح مناصب اور کرسیوں کو چھوڑ دیں اگر ایسا کرنے میں اللہ کی رضا، امت کی مصلحت، خونریزی سے رکاوٹ اور امت کا اتحاد مضمر ہو۔ دنیا سے بے رغبتی پر معاون چیزوں میں سے امیدوں کا اختصار، موت کی یاددہانی اور قبروں کی زیارت ہے، حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی انگوٹھی پر یہ شعر لکھا ہوا تھا: قدم لنفسک ما استطعت من التقی إن المنیۃ نازل بک یا فتی ’’تقویٰ کے کام جتنا کرسکے کرلے، اے نوجوان! تجھے موت سے دوچار ہونا ہی ہے۔‘‘ أصبحت ذا فرح کأنک لا تری أحباب قلبک فی المقابر و البلی[2] ’’تم بہت خوش ہو گویا تم اپنے جگری ساتھیوں کو نہیں دیکھ رہے ہو جو قبروں میں جاکر بوسیدہ ہو رہے ہیں۔‘‘ حسن بن علی رضی اللہ عنہما اپنے زمانے کے زاہدوں میں سے تھے، زہد میں آپ کو سبقت حاصل تھی، آپ نے دنیا اور اس کے ساز و سامان کو ترک کردیا تھا، لوگوں کے نزدیک مقام ومرتبہ کی چاہت کو چھوڑ کر رضائے الٰہی کے کاموں میں مشغول تھے، اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں آپ کو قدر و منزلت اور عزت و شرف سے نوازا تھا، جب کہ آپ کو اس کی چاہت نہیں تھی، بلکہ اس سے اس خوف سے بہت دور بھاگتے تھے کہ کہیں لوگوں کے سبب آپ کا رشتہ اللہ تعالیٰ سے کمزور نہ ہوجائے۔ فرمان الٰہی ہے: (إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَـٰنُ وُدًّا) (مریم:۹۶) ’’بے شک جو ایمان لائے، نیک کام کیے ان کے لیے اللہ رحمن محبت پیدا کردے گا (یعنی لوگوں کے دلوں میں)۔‘‘ اور حدیث میں وارد ہے: ((إن اللّٰہ إذا أحب عبدا نادی یا جبریل إنی أحب فلانا فیحبہ جبریل ثم یحبہ
Flag Counter