Maktaba Wahhabi

133 - 548
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ان مختصر کلمات اور قرآن سے دلیل پیش کرنے پر لوگوں کے ہوش و حواس درست ہوگئے، ان کا دماغ اچھی طرح کام کرنے لگا اور اچھی طرح سمجھنے لگے کہ اللہ تعالیٰ تنہا ہی ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے، اس پر موت طاری نہیں ہوسکتی، وہی تنِ تنہا عبادت کا مستحق ہے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی اسلام باقی رہنے والا ہے۔[1] اسی طرح ایک دوسری روایت میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ’’اللہ کا دین باقی رہنے والا ہے، اللہ کا کلمہ پورا ہوکر رہے گا، اللہ تعالیٰ اپنی مدد کرنے والے کا مددگار ہے، اپنے دین کو غالب کرنے والا ہے، اللہ کی کتاب ہمارے درمیان ہے، اس میں روشنی اور شفا ہے، اسی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی کی، اس میں حلال و حرام کی تمام تفصیلات ہیں، اللہ کی قسم جو بھی ہمارے خلاف آئے ہمیں اس کی پروا نہیں، اللہ کی تلواریں ابھی بے نیام ہیں، ہم نے انھیں رکھا نہیں ہے، ہم اپنی مخالفت کرنے والوں سے ضرور جہاد کریں گے، جیسا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں جہاد کیا، اس لیے جو بھی بغاوت کرے گا، وہ اپنے خلاف ہی بغاوت کرے گا۔‘‘[2] محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بہت بڑی مصیبت اور سخت آزمائش تھی، اسی اثناء میں اور اس کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شخصیت امت کے ایک بے مثال و بے نظیر قائد کے مانند ابھری۔[3] یقین آپ کے دل میں گھر کر چکاتھا، نتیجتاً تمام حقیقتیں آپ میں پختہ ہوگئی تھیں، آپ عبودیت، نبوت اور موت کی حقیقتوں کو اچھی طرح جان چکے تھے، ایسے مشکل موقع پر آپ کی حکمت عملی ظاہر ہوتی، لوگوں کو توحید کا درس دیتے ہوئے فرمایا: ((مَنْ کَانَ یَعْبُدُ اللّٰہَ فَإِنَّ اللّٰہَ حَیٌّ لَّا یَمُوْتُ۔)) ’’جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ زندہ رہے گا اس پر موت طاری نہیں ہوگی۔‘‘ لوگوں کے دلوں میں توحید ترو تازہ تھی، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی یاددہانی سنتے ہی حق کی جانب لوٹ گئے۔[4]
Flag Counter