Maktaba Wahhabi

135 - 548
’’اما بعد! ہم اللہ کے انصار اور اسلام کی بڑی فوج ہیں، تم مہاجرین کی جماعت ایک چھوٹی قوم ہو، تم میں سے تھوڑے سے لوگ تیزی سے چل پڑے ہیں جو ہمیں ہماری اصل سے کاٹ دینا اور معاملے (خلافت) سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘ اس کی خاموشی کے بعد میں نے گفتگو کرنی چاہی، میں نے اپنی من پسند تقریر تیار کر رکھی جسے میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کرنا چاہتا تھا، اور اس خطیب سے کچھ سختی سے نمٹنا چاہتا تھا، جب میں نے تقریر کرنی چاہی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ٹھہرو! میں نے آپ کی ناراضی کو پسند نہیں کیا، چنانچہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے تقریر کی، آپ مجھ سے زیادہ بردبار اور سنجیدہ تھے، میں جو بھی کہنا چاہتا تھا آپ نے ویسی ہی یا اس سے بہتر باتیں کہیں اور چپ ہوگئے۔ تو ان کے خطیب نے کہا: آپ لوگوں نے اپنی جن بھلائیوں کا ذکر کیا ہے، آپ لوگ اس کے اہل ہیں، خلافت کا معاملہ قبیلۂ قریش ہی میں رہے گا، ان کا نسب اور قبیلہ عربوں میں سب سے اچھا ہے، میں نے تمہارے لیے ان دونوں میں سے کسی ایک کو پسند کیا ہے، ان میں سے جس کے لیے چاہو بیعت کرلو، اس نے میرا اور ابوعبیدہ بن جراح کا ہاتھ پکڑا۔ ان کی یہ بات مجھے بری لگی، اللہ کی قسم میری گردن مار دی جائے اور اس میں میں کسی گناہ کا مرتکب نہ بنوں، یہ مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ میں ایسی قوم کا امیر بن جاؤں جس میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ موجود ہوں۔ تو انصار کے شخص نے کہا: ((أنا جذیلہا المحکک وعذیقہا المرحب۔)) [1] ’’میں انصار میں صائب الرائے اور مدد کرنے کا اہل ہوں ‘‘ اے قریش کے لوگو! ہمارا ایک امیر ہو اور تمھارا ایک امیر ہو، چنانچہ شور و غوغا زیادہ ہوگیا، آوازیں بلند ہونے لگیں، مجھے اختلاف کا خدشہ لاحق ہوا تو میں نے کہا:اے ابوبکر صدیق آپ ہاتھ پھیلائیں، انھوں نے ہاتھ پھیلایا، چنانچہ میں نے اور مہاجرین نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی، پھر انصار نے بھی بیعت کرلی۔‘‘ [2] امام احمد کی ایک روایت میں ہے: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تقریر کی، انصار سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی باتوں کا تذکرہ کیا تھا ان تمام باتوں کا انھوں نے اپنی تقریر میں تذکرہ کیا، فرمایا: مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ
Flag Counter