Maktaba Wahhabi

136 - 548
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: اگر لوگ ایک طرف جا رہے ہوں اورانصار دوسری طرف، تو میں انصار کے ساتھ جاؤ ں گا، اور اے سعد بن عبادہ تمھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ تم بیٹھے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: اہل قریش اس خلافت کے والی ہیں، اچھے لوگ اچھے لوگوں کے تابع ہوں گے اور برے لوگ برے لوگوں کے، جواب میں سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ سچ کہتے ہیں، ہم لوگ وزیر ہیں اور آپ لوگ خلیفہ اور امیر ہیں۔ [1] ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امارت و خلافت کی خواہش نہیں تھی، آپ کی یہ بے رغبتی آپ کی اس تقریر سے واضح ہوتی ہے جس میں آپ نے خلافت کی معذرت کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’کسی وقت بھی مجھے امارت و خلافت کا لالچ نہیں تھا نہ رغبت، اور نہ سراً یا جہراً میں نے اللہ تعالیٰ سے اس کے لیے دعا کی تھی، لیکن فتنے کے خوف سے قبول کرلیا، خلافت میں مجھے آرام نہیں ہے، اللہ کے سہارے ہی میں نے اتنے عظیم کام کی ذمہ داری قبول کرلی ہے، میری خواہش تھی کہ جس میں خلافت کی سب سے زیادہ طاقت ہوتی وہ میری جگہ ہوتا۔‘‘ [2] آپ نے اپنی خلافت سے متعلق لوگوں کی ہر طرح مخالفت کی براء ت طلب کرتے اور ان سے اس پر قسم کھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’اے لوگو! میں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ جو شخص میری بیعت سے نادم ہو تو وہ کھڑا ہو جائے۔‘‘ تو علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، آپ کے ہاتھ میں تلوار تھی، قریب ہو کر ایک پیر منبر پر رکھا دوسرا کنکریوں پر اور فرمایا: اللہ کی قسم نہ ہم آپ کی ہٹائیں گے اور نہ ہٹ جانے کا مطالبہ کریں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو آگے بڑھایا ہے تو آپ کو کون پیچھے کرسکتاہے۔‘‘[3] یہی وہ حقائق ہیں جنھیں حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے سقیفۂ بنی ساعدہ کے واقعے سے سیکھا تھا نہ کہ وہ چیزیں جن کا تاریخ گھڑنے والے دعویٰ کرتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ خلافت کی بے رغبتی صرف ابوبکر رضی اللہ عنہ میں رہی ہو، بلکہ یہ اس دور کا امتیاز تھا (اس سے متعلق نصوص کی تفصیل میری کتاب ’’الانشراح و رفع الضیق بسیرۃ أبي بکر الصدیق‘‘ میں موجود ہے، اس کا مراجعہ کیا جاسکتا ہے۔) کہا جاسکتاہے کہ سقیفۂ بنی ساعدہ میں جو بھی گفتگو ہوئی، اسی نقطے کے اردگرد گھومتی ہے، اس بات کو بہ تاکید ثابت کرتی ہے کہ انصار اسلامی دعوت کے اچھے مستقبل کے حریص اور اس سلسلے میں قربانیو ں کے لیے ہمیشہ تیار
Flag Counter